Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریکِ عدم اعتماد کا اعلان کرنے کے لیے اپوزیشن کی مشترکہ کمیٹی قائم

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے قائدین نے حزب اختلاف کی تمام جماعتوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو سیاسی اور قانونی حکمت عملی اور تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے وقت کا تعین کرے گی۔
پی ڈی ایم، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی اعلٰی قیادت کا اہم مشاورتی اجلاس بدھ کو مسلم لیگ ن کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔
اجلاس میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اجلاس میں موجود تھے۔
اس کے علاوہ یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، خواجہ سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، ایاز صادق، مریم اورنگزیب اور جے یوآئی ف کے رہنما مولانا اسعد الرحمان اور  اکرم درانی بھی موجود تھے۔
اپوزیشن کی مشترکہ کمیٹی میں کون کون شامل ہے؟
پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف کے تین تین رہنما کمیٹی کے رکن ہوں گے۔  
اپوزیشن جماعتوں کے لاہور میں ہونے والے اجلاس میں شریک ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’اپوزیشن کی مشترکہ کمیٹی میں مسلم لیگ ن کی نمائندگی خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق اور رانا ثناءاللہ کریں گے۔‘
پیپلز پارٹی کی جانب سے سید یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف اور سید نوید قمر کمیٹی کا حصہ ہوں گے جبکہ جمیعت علمائے اسلام ف کی نمائندگی مولانا اسعد محمود، اکرم خان درانی اور سینیٹر کامران مرتضیٰ کریں گے۔‘  
اپوزیشن رہنما کے مطابق کمیٹی کا اجلاس جلد سے جلد منعقد ہوگا جس میں نہ صرف عدم اعتماد لانے کے حوالے سے حتمی معاملات طے کیے جائیں گے بلکہ نمبر گیم پوری کرنے کے حوالے سے حکومتی اتحادیوں اور ارکان سے رابطوں کا طریقہ کار اور مستقبل کی حکمت عملی بھی طے کی جائے گی۔  

اپوزیشن کی کمیٹی سیاسی اور قانونی حکمت عملی اور تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے وقت کا تعین کرے گی (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

اپوزیشن قائدین کا کہنا تھا کہ ’پیکا ترمیمی آرڈیننس پورے ملک پر آمریت نافذ کرنے کی کوشش ہے جو نہ صرف دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق خاص طور پر اظہار رائے کی آزادی کے حق کے منافی ہے بلکہ ملکی و عالمی انسانی حقوق کے بنیادی تصور اور جمہوری معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔‘
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’ہم ان غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر جمہوری اقدامات کو ہر قانونی فورم پر چیلنج کریں گے اور ان کا راستہ روکیں گے۔‘
’میڈیا ، سیاسی مخالفین اور سچائی و تنقید کا آئینی حق استعمال کرنے والے ہر فرد کو پیکا ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے گونگا، بہرہ اور اندھا بنانے کی سازش کی گئی ہے۔‘
قائدین نے ملک کی مجموعی صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا اور اتفاق کیا کہ موجودہ حکومت سے جس قدر جلد ممکن ہوسکے، ملک کو نجات دلائی جائے۔

اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ’پیکا ترمیمی آرڈیننس کو ہر فورم پر چیلنج کیا جائے گا‘ (فائل فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)

’بجلی، گیس، پیٹرول سمیت کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام خاص طور پر غریب اور تنخواہ دار طبقات کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
اعلامیے کے مطابق ’ساڑھے تین سال سے ظالمانہ بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار اور غلط فیصلوں کے نتیجے میں معیشت کی تباہی، روپے کی قدر اور ملکی و بیرونی قرضوں میں تاریخی اضافہ ہوا۔‘
’حکومت نے عوام کو شدید مشکلات سے دوچار کردیاہے۔عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے اس حکومت کا گھر جانا لازم ہے جس پر ہم سب متفق ہیں۔‘
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان میں قومی اتحاد اور یکجہتی کی فضا کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔‘
’وفاق اور اس کی اکائیوں کے درمیان وسائل کی تقسیم پر بداعتمادی پیدا ہورہی ہے جو ملک کے قومی مفاد میں نہیں۔فیڈرل ازم کے تحفظ اور فروغ کے لیے اپوزیشن متحد اور متفق ہے۔‘

مشترکہ اعلامیے کے مطابق ’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے درمیان مشاورت سے فیصلے کرنے پر اتفاق ہوا ہے‘ (فوٹو: سکرین گریب)

آصف علی زرداری اور چودھری پرویزالٰہی کی ملاقات میں اہم فیصلے
سابق صدر آصف زرداری سے سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی نے بدھ کے روز وفد کے ہمراہ ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے درمیان مشاورت سے فیصلے کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
سیاسی منظر نامے میں آصف علی زرداری اور چودھری پرویزالٰہی مشاورت سے لائحہ عمل طے کریں گے۔‘
اعلامیے کے مطابق ’مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے ایک دوسرے پر بھرپور اعتماد کا بھی اظہار کیا۔‘
ملاقات میں مسلم لیگ ق کی جانب سے طارق بشیر چیمہ، مونس الٰہی، سالک حسین، حسین الٰہی، شافع حسین اور راسخ الٰہی بھی موجود تھے۔

شیئر: