Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک عدم اعتماد، اپوزیشن کے پاس آخری موقع 

فرض کیجیے تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجاتی ہے اور اپوزیشن کا وہی حال ہوتا ہے جو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں ہوا تو پھر کیا ہوگا؟ (فائل فوٹو: پی ایم آفس)
ایک دفعہ پھر ہم تبدیلی کا نعرہ سن رہے ہیں۔ ایک بار پھر اپوزیشن کی جانب سے دھڑن تختہ ہونے کا اعلان سنائی دیا جارہا ہے۔ حکومت ’آج گئی کہ کل‘ اس طرح کے تبصرے پھر زبان زد عام ہوچکے ہیں۔ اس سے پہلے بھی گذشتہ تین سال میں یہ نعرہ بارہا لگ چکا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب بھی ایسا ماضی قریب میں ہوا اپوزیشن نے منہ کی کھائی۔
مولانا فضل الرحمان کا دھرنا ہو۔ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہو، فنانس بل ہو یا سٹیٹ بینک ترمیمی بل ہو، ہر موقع پر اپوزیشن کو شکست ہوئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دفعہ ایسا کیا ہوگا جو نیا کہلائے گا، جس سے حکومت کا دھڑن تختہ ہوجائے گا۔ اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے مضمرات اور ثمرات کو جانچنے کی ضرورت ہے۔ 
قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک دفعہ وزیرِاعظم عمران خان نے کوئی قرعہ اندازی کرنا تھی جس میں پورے ملک کے 22 کروڑ افراد نے شامل ہونا تھا۔ خان صاحب نے کیمروں کے سامنے پانچ پرچیاں نکالیں۔ اس بات پر سوشل میڈیا میں حکومت کی بڑی بھد بھی اُڑی کہ یہ کیسا اتفاق ہے کہ پورے ملک میں سے جن کے قرعے نکلنا تھے وہ سارے اس تقریب میں مدعو تھے۔ یہی حال تحریک عدم اعتماد کا بھی ہے۔ ایک طرف تو ساری جماعتیں یہ نعرہ لگاتی رہیں کہ ہم اپنی مجلس عاملہ سے بات کر کے عوام کو اپنے فیصلے سے آگاہ کریں گے۔
پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد فیصلہ ہوگا، اور دوسری جانب سب جماعتیں میدان لاہور میں اکٹھی ہوگئیں۔ ایم کیو ایم کا وفد بھی اتفاق سے لاہور میں پایا گیا۔ مسلم لیگ ق بھی مذاکرات اور ملاقاتوں کے لیے ظہور الٰہی پیلس میں موجود تھی۔ زرداری صاحب اور بلاول بھٹو بھی لاہور میں براجمان تھے۔ شہباز شریف بھی صحت مند ہوچکے تھے۔ دنوں میں یہ سب ملاقاتیں ہوئیں اور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا کہ کس کا قرعہ نکلا ہے اور کس کی پرچی خالی ہے۔ اس اتفاق یا ’حسنِ اتفاق‘ کے معنی بہت گہرے بھی ہوسکتے ہیں۔  

سب جماعتیں میدان لاہور میں اکٹھی ہوگئیں، زرداری صاحب بھی لاہور میں براجمان تھے اور شہباز شریف بھی صحت مند ہوچکے تھے (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن)

حکومت کو گرانے کی یہ آخری کوشش ہوسکتی ہے۔ جولائی میں اس حکومت کو چار سال پورے ہوجائیں گے۔ آخری سال ویسے بھی الیکشن کی تیاری کا ہوتا ہے۔ اس میں حکومت کو گھر بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس سال میں نئی انتخابی حکمت عملی تشکیل ہوتی ہے۔ نئے اتحاد بنتے ہیں۔ پارٹیاں اپنی صف بندی کرتی ہیں۔ بہترین امیدواروں کا انتخاب ہوتا ہے۔ اس سال میں تحریک عدم اعتماد بے فائدہ ہی نہیں بے معنی بھی ہوتی ہے۔ یہ آخری کوشش ہے۔ اس کے بعد حکومت میں تبدیلی کا نہ کوئی امکان ہے نہ ضرورت۔  
ذرائع بتاتے ہیں کہ اس تبدیلی کے لیے نواز شریف کو بہت مشکل سے منایا گیا ہے۔ وہ نئے الیکشن کے علاوہ کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھے۔ عدم اعتماد ان کے ذہن کی پیداوار نہیں ہے۔
لیکن کبھی انہیں بتایا گیا کہ عوام بہت تیار ہیں، کبھی حکومتی جماعت کے 22 لوگوں کی فہرست دکھائی گئی، کبھی اتحادی جماعتوں کی جانب سے اعتماد کا یقین دلایا گیا۔ کبھی ہر قسم کی ’ریاستی مداخلت‘ کا امکان ختم کیا گیا۔ تب جا کر نواز شریف نے اس پر اتفاق کیا۔

 پہلے کے مقابلے میں اب نواز شریف نے عمران خان کو سنجیدہ لینا شروع کردیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

لیکن جب اتفاق کرلیا تو پھر پورے دبنگ طریقے سے کیا۔ انہوں نے نہ صرف عمران خان کو سنگل آؤٹ کیا بلکہ حکومت کے جانے کو قوم کے لیے خوش خبری بھی قرار دیا، اور اس مہم جوئی پر پوری جماعت اور اپنے حلیفوں کو بھی اُکسایا۔
نواز شریف نے گذشتہ پانچ سال میں یہ پہلی دفعہ کیا ہے۔ اس سے پہلے وہ عمران خان کو مقابلے کا حقدار ہی نہیں کہتے تھے، لیکن اب نواز شریف نے عمران خان کو سنجیدہ لینا شروع کردیا ہے۔ یہ حکو مت کے لیے لمحۂ فکریہ ہوسکتا ہے۔ نواز شریف اگر اس نتیجے پر پہنچے ہیں تو ان کے پاس اس نئی جنگ کے لیے کوئی دلیل بھی یقیناً ہوگی۔ وہ دلیل کیا ہے اس کے بارے میں فیصلہ مستقبل کرے گا۔ 
حکومت کے لیے حالات سازگار نہیں رہے۔ کبھی فیصل واوڈا کے خلاف عرصے سے رُکا فیصلہ آجاتا ہے کبھی بین الاقوامی طور پر یہ علم ہوتا ہے کہ کرپشن تو اس دور میں بڑھ گئی ہے۔
کبھی فیصل آباد میں شہباز گِل پر آوازے کسے جاتے ہیں۔ کبھی عمران خان فرسٹریشن میں ’خطر ناک‘ ہونے کا عندیہ دے دیتے ہیں۔ اس سے یہ تو پتا چلتا ہے کہ عدم اعمتاد کے لیے حالات موافق ہیں۔  

سب اپوزیشن جماعتوں کا 23 مارچ کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ بہت سے لوگوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوسکتا ہے (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن)

فرض کیجیے یہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجاتی ہے اور اپوزیشن کا وہی حال ہوتا ہے جو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں ہوا تو پھر کیا ہوگا؟ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ پی ڈی ایم نے اپنے پاس ایک دوسرا آپشن بھی رکھا ہوا ہے۔
اگر تحریکِ عدم اعمتاد منظور نہیں ہوتی تو لانگ مارچ کا آپشن بہرحال موجود ہے۔ سب اپوزیشن جماعتوں کا 23 مارچ کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ بہت سے لوگوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوسکتا ہے۔ 
آخر میں یہ کہنا بہت ضروری ہے کہ یہ پہلی تحریک عدم اعتماد ہوگی جس میں حکومت کے جانے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آئندہ کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا؟ نیا وزیر اعظم کون اور کس جماعت کا ہوگا؟ کیا الیکشن کی کال دی جائے گی؟  اس حکومت کے دن کسی اور وزیراعظم کے تحت پورے کروائے جائیں گے؟ اس دشوار وقت میں پیپلز پارٹی حکومت میں آئے گی اور اس دور کی خرابی کا سارا الزام اپنے سر لے لے گی؟  
اگلا بجٹ کون پیش کرے گا؟ کیا حکومت کی بیساکھیاں ہٹ جائیں گی؟ ون پیج پھٹ جائے گا؟ کیا راج کرے گی خلقِ خدا کا نعرہ لگے گا؟ ان سوالات کے جواب ابھی تشنہ ہیں۔ فی الوقت اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جو فیصلہ ہونا ہے 23 مارچ سے پہلے ہوجائے گا۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں