Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور قلندرز سے پیار کب جنوں بن گیا، پتہ ہی نہیں چلا: مہوش بھٹی کا تبصرہ

لاہور قلندرز نے پی ایس ایل کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹرافی اپنے نام کی۔ فوٹو اے ایف پی
سو سال پہلے
مجھے تم سے پیار تھا
آج بھی ہے اور
کل بھی رہے گا
یہ گانا میں ہمیشہ گنگناتی ہوں جب مجھے کسی بھی شخص سے یا چیز سے پیار ہوجائے۔ اور یہی گانا لاہور قلندر کے مسلسل 6 سال ہارنے پر بھی میں نے گایا ہے۔ کیونکہ لاہور سے محبت کا یہ تقاضہ ہے کہ وہ جیسا ہے اسے ویسے ہی پیار کیا جائے۔
ایک سو سال پہلے، آج اور کل، لاہور قلندرز سے اِس لازوال محبت کا آخر کار نتیجہ آ گیا۔ چھ سال مسلسل تکلیف، آنسو اور ذہنی انتشار کے بعد لاہور قلندرز اپنا پہلا پی ایس ایل کا ٹائیٹل جیت گئی۔
ملتان سلطانز کے خلاف فائنل شروع ہونے سے پہلے مجھے ہلکا بخار ہونے لگ گیا تھا۔ میری ہڈیوں میں ایسے درد تھا جیسے ٹم ڈیوڈ نے اپنے بیٹ سے مجھے مارا ہو۔ میں ہر دس منٹ کے بعد گھبراہٹ کا شکار ہو کر ادھر اُدھر پِھر رہی تھی۔ اور ایک لمحہ ایسا بھی آیا تھا جب میں نے سوچا کے یا اللہ! جنگ ہی ہو جائے۔ کسی طرح بس یہ میچ نہ ہی ہو۔
 لیکن پھر پی ایس ایل کی ٹرافی کے ساتھ رضوان اور شاہین کی مسکراتی تصویر دیکھی تو ایک دم عجیب سا سکون آ گیا جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے۔
لاہور قلندرز سے پیار کب عشق، جنون، دیوانگی بن گیا، پتہ ہی نہیں چلا۔ یہ دیوانگی ہی ہے کہ ملتان جس کے پاس رضوان ہے کو چھوڑ کر لاہور جس کے پاس حفیظ ہے، کا ساتھ دینے لوگ جاتے ہیں۔
میرے پاس اگر آج 15 پلاٹ ہوتے تو میں سارے پلاٹ رضوان کی مسکراہٹ پر وار کے پھینک دیتی۔ لیکن عشق لاہور مجھے اِجازَت نہیں دیتا کہ میں رضوان کو اپنا خیالی پلاٹ بھی دوں۔
لاہور قلندرز کی اس بار پی ایس ایل کی پرفارمنس پر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انہوں نے پچھلے چھ سالوں کی نہ ملنے والی جیت کو اِس بار ہر کسی سے چھینا ہے۔
شاہین شاہ آفریدی ہر میچ میں یہ کہتے ’بند کرو اپنی ٹیم ، ایتھے لاہور قلندرز بنے گی۔‘
لاہور قلندرز کی اس بار پی ایس ایل میں فتح کا سلسلہ نہر و نہر سیدھا تو نہیں رہا لیکن ماضی کی طرح بھی نہیں رہا جہاں لاہور ایسے ہی ایک دم پوائنٹس ٹیبل پر نیچے گرتا تھا جیسے بندہ چلتے چلتے گٹر میں گر گیا ہو۔

لاہور قلندرز نے ملتان سلطانز کو 42 رنز سے شکست دی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

لاہور قلندرز کو اس پی ایس ایل میں کئی بار اپنی پرانی پرفارمنس یاد آئی۔ انہوں نے ویسی ہی پرفارمنس دینے کی بھی کوشش کی جس میں سرفہرست حفیظ رہے لیکن شاہین، زمان، فخر، راشد اور ڈیوڈ وییزا ہمیشہ حفیظ کے راستے میں آ گئے۔
جب جب حفیظ نے گیند ضائع کی، تب تب ڈیوڈ وییزا نے بلا اٹھا کر حفیظ کے خلاف بغاوت کی۔ لاہور کے آخری دو میچز میں تو یہی لگا جیسے ڈیوڈ وییزا بھی یہ کہہ رہے ہوں کہ ’بند کرو حفیظ، ایتھے ڈیوڈ وییزا بنے گا۔‘
پی ایس اہل کے فائنل میں خیر حفیظ نے اپنے جوہر دکھائے، بیٹنگ بھی کی بولنگ بھی کی اور اب شاید وہ اپنی ریٹائرمنٹ بھی واپس لے لیں۔ ریٹائرمنٹ بھی پاکستان میں گاتی ہوگی ’تم تو ٹھہرے پردیسی، ساتھ کیا نبھاؤ گے۔ اگلی پرفارمنس کے بعد، واپس ٹیم میں لوٹ جاؤ گے۔‘
ملتان سلطانز کی جتنی تعریف کروں کم ہے۔ رضوان، شان، دہانی، روسوو، ٹم، مطلب نام لکھے جاؤ اور بس لکھتے ہی جاؤ۔ اک تشنگی ضرور رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ عمران طاہر بھاگ کر كلمہ چوک نہیں پہنچے۔ چلیں کوئی نہیں، اگلی بار سہی۔
جہاں تک لاہوری تماشائیوں کا تعلق ہے تو ایک ہی جملہ آتا ہے ذہن میں ’لہور لہور اے۔‘

لاہور قلندرز کے فخر زمان اور زمان خان کو ایمرجنگ کھلاڑی قرار دیا گیا۔ فوٹو اے ایف پی

سٹیڈیم کھچا کھچ بھرا رہا۔ لاہوریوں نے لاہور قلندرز کو احساس دلایا کے ’ویے تسی وی کھیڈن ای آئے ہو کھیڈو ہن۔‘
بہت سالوں بعد ہمیں وہ پرانا پاکستان دیکھنے کو ملا جس میں لوگ بے خوف ہو کر باہر آئے۔
پی ایس ایل کا میلہ ختم ہو گیا ہے۔ اب زندگی جیسے رک سی جائے گی۔ وقت تھم جائے گا۔ اک عجب سی کمی محسوس ہوگی۔ لیکن اِس کمی کو بھی لاہوری خوشی سے قبول کر لیں گے یہ کہہ کر ’چھڈو فیر، کج کھائیں۔‘
پی ایس ایل کے ختم ہونے پر ایک شعر بنتا ہے:
آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے
آپ کے ساتھ ہے گزاری ہے

شیئر: