Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سؤر کا دل، مریض ٹرانسپلانٹیشن کے دو ماہ بعد چل بسا

ڈیوڈ بینیٹ کو جنوری میں سؤر کا دل لگایا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
دنیا کا پہلا شخص، جس کو آپریشن کے ذریعے سؤر کا دل لگایا گیا تھا، امریکہ کے شہر واشنگٹن میں انتقال کر گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جس ہسپتال میں آپریشن کیا گیا تھا، اس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ وہ شخص دو ماہ تک زندہ رہا جو کہ امید افزا ہے اور ایک روز یہ بھی ممکن ہو گا کہ انسانوں کو جانوروں کے اعضا کامیابی کے ساتھ لگائے جا سکیں گے جن کی ہمیشہ ہی کمی رہتی ہے۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ سسٹم نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ 57 سالہ ڈیوڈ بینیٹ کا ٹرانسپلانٹ سال رواں سات جنوری کو ہوا تھا اور ان کا انتقال آٹھ مارچ کو ہوا۔
ہسپتال کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ’ابھی تک کوئی ایسی خاص وجہ سامنے نہیں آ سکی جو موت کی وجہ بنی ہو، اس حوالے سے ڈاکٹرز معلومات جمع کر رہے ہیں جن کو سائنسی جریدے میں شائع کیا جائے گا۔‘
یونیورسٹی آف میری لینڈ کے شعبہ کارڈیک کے ڈائریکٹر اور آپریشن ٹیم کا حصہ رہنے والے محمد محی الدین نے ایک ویڈیو بیان میں بتایا ہے کہ ’ہمیں بینیٹ کے انفیکشن کو کنٹرول کرنے اور امیونوسپریشن کے درمیان توازن رکھنے میں مشکلات پیش آئیں۔‘
ہسپتال کے بیان کے مطابق کافی روز قبل بینیٹ کی صحت گرنا شروع ہوئی تھی اور یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ صحت یاب نہیں ہو سکتے، ان کو انتہائی خاص سہولتیں دی گئیں، وہ اپنے آخری گھنٹوں کے دوران بھی اپنی فیملی کے ساتھ بات چیت کرتے رہے۔
بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ سرجری کے بعد کئی ہفتے تک دل بہت اچھا کام کرتا رہا اور ایسے کوئی آثار سامنے نہیں آئے جن سے اندازہ ہوتا کہ معاملات خراب ہوں گے۔

سات جنوری ڈیوڈ بینیٹ کی سرجری کی گئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

’بینیٹ اس قابل تھے کہ اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزار سکیں، جسمانی تھراپی میں حصہ لیتے رہے، اس دوران وہ سپیر باؤل کے مقابلے بھی دیکھتے رہے جبکہ گھر سے آنے کے بعد اپنے کتے لکی کے بارے میں بھی بتاتے۔‘
آپریشن کرنے والی ٹیم کے سربراہ بارٹلے گریفیتھ کہتے ہیں کہ ’بینیٹ نے ثابت کر دیا کہ وہ بہادر اور صابر انسان تھے اور آخری وقت لڑتے رہے، ہم ان کی فیملی کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔‘
بینیٹ کو اکتوبر 2021 میں امریکی ریاست میری لینڈ کے ایک ہسپتال میں لایا گیا تھا۔
وہ بستر تک محدود تھے اور ان کی سانس کو ہنگامی لائف سپورٹ میشن کے ذریعے قائم رکھا جا رہا تھا اور ایسا اکثر تب کیا جاتا ہے جب کسی مریض کی صحت ٹرانسپلاٹیشن کی متحمل نہ ہو۔
محی الدین بتاتے ہیں کہ ’اس تجربے سے ٹیم کو انمول بصیرت ملی ہے، ہم پرامید ہیں اور آگے بھی اس ضمن میں کام جاری رکھیں گے۔‘
امریکی میڈیا میں ایسی رپورٹس بھی سامنے آتی رہی ہیں ڈیوڈ بینیٹ کو 1988 میں ایک شخص کو چھرا مارنے کے جرم میں سزا بھی دی گئی، حملے کا نشانہ بننے والا اپاہج ہو گیا تھا اور 2005 میں انتقال کر گیا تھا۔

شیئر: