Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کا آسٹریلوی روم میٹ جس کی وجہ سے پاکستان ورلڈکپ ہارا

آسٹریلوی کرکٹر اسٹیو وا کو ہمیشہ عمران خان کے ساتھ کمرے میں ٹھہرایا جاتا۔
سنہ 1985 میں عمران خان آسٹریلیا میں شیفلڈ شیلڈ کھیلنے گئے تو نیو ساؤتھ ویلز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری باب ریڈ فورڈ نے یہ بات  یقینی بنائی کہ جب بھی ٹیم شہر سے باہر میچ کھیلنے جائے تو اسٹیو وا کو عمران خان کے ساتھ ٹھہرایا جائے تاکہ وہ لیجنڈری کرکٹر کے ساتھ رہ کر کھیل کی باریکیاں جان سکیں۔ ان کے تجربے سے استفادہ کر سکیں۔ اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آسٹریلیا میں کرکٹ کے منتظمین نوجوان کھلاڑیوں کو کس طریقے سے گروم کرتے ہیں۔
اسٹیو وا نے عمران خان کے روم میٹ کی حیثیت سے جو وقت گزارا اس کا ذکر عمران خان نے اپنی کتاب ’آل راؤنڈ ویو‘ میں کیا ہے۔ اسٹیو وا کی خود نوشت ’آؤٹ آف مائی کمفرٹ زون‘ میں  بھی اس کا تذکرہ موجود ہے۔
عمران خان کی کتاب جس کا اردو ترجمہ ’معروف سپورٹس صحافی’ گل حمید بھٹی نے کیا ہے۔ اس سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’اسٹیو وا نے نیو ساؤتھ ویلزکی طرف سے اس وقت اپنے کیرئیر کا آغاز کیا جب میں ان کے لیے کھیل رہا تھا۔ نیو ساؤتھ ویلز کرکٹ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری باب ریڈ فورڈ نے، جب ٹیم اپنے شہرسے باہر جاتی، اسے میرے ہی کمرے میں اس لیے ٹھہرانا شروع کیا تاکہ وہ مجھ سے کچھ سیکھ سکے، مگر وا اس قدر خاموش رہتا تھا کہ مجھے شک ہوا کہیں اس کے جبڑے آپس میں جڑے ہوئے تو نہیں۔ اگرچہ اس کے منہ سے کبھی ایک لفظ بھی نہ نکلا، لیکن میں بتا سکتا تھا کہ اس میں حوصلہ مندی اور ڈٹ کرمقابلہ کرنے کی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ اس وقت جس تیزی سے وہ بلندیوں کی طرف بڑھا ہے، اس بات کی غمازی ہوتی ہے کہ اس کا مزاج مکمل طور پر کرکٹ کے لیے موزوں ہے۔‘

شیفلڈ شیلڈ کا فائنل عمران خان اور اسٹیو وا کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے 

اسٹیو وا نے ’آؤٹ آف مائی کمفرٹ زون‘ میں قدرے تفصیل سے اپنے تاثرات قلمبند کیے ہیں:
’خیال تھا کہ میں کرکٹ کے بہترین آل راؤنڈرز میں سے ایک عمران خان سے سیکھ سکوں گا۔ ان کی باتیں سن سکوں گا۔ کیوں کہ چھ دن کے اس دورے میں میرے روم میٹ عظیم عمران خان تھے جو نیو ساؤتھ ویلز کے لیے اپنا پہلا اور آخری سیزن کھیل رہے تھے۔ بہرحال جب وہ وقت ختم ہوگیا جو ہم نے ساتھ گزارا تو میں یہی سوچتا رہ گیا کہ مجھے ایک ہونہار آل راؤنڈر کے طور پر چنا گیا تھا یا پھر مجھ میں چھپی سیکرٹری کے طور پر صلاحیت کو سامنے لانا تھا۔ عمران خان واقعی ایک لیجنڈ تھے۔ میں ان کی کمرے میں دستیابی کے بارے میں جوابات دینے میں اس قدر مصروف رہا کہ مجھے میچ کے سلسلے میں نروس ہونے کا وقت ہی نہیں ملا۔ میری خواہش تھی کہ میں ان سے ہر طرح کے سوالات پوچھوں اور کرکٹ کے بارے میں معلومات حاصل کر سکوں۔ لیکن اس وقت میں بہت نروس اور مرعوب تھا۔ ایک تو یہ، دوسرے ان کی شخصیت کے گرد ہالہ تھا۔ میرے دل میں ان کی جس قدر تعظیم تھی اس کے باعث میری زبان بند کی بند رہ گئی اور میں ان سے مکالمہ نہ کرسکا۔۔۔۔ یہ ایک عجیب احساس تھا کہ آپ کسی ایسے شخص سے جس کی پرستش کرتے رہے ہوں اس سے ایک میٹر سے بھی کم فاصلے پرسو رہے ہوں۔ اس کے خراٹے سن رہے ہوں۔ ایک ہی غسل خانہ استعمال کر رہے ہوں اور سونے سے پہلے ٹی وی دیکھتے ہوئے چھوٹی موٹی باتیں کر رہے ہوں۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو معمول کے مطابق ہو اور مجھ میں ابھی اتنی پختگی نہیں آئی تھی کہ میں باتوں کو نارمل انداز میں لے سکتا، اس لیے میں صرف دیکھتا رہا اوردل کی باتیں دل تک ہی رکھیں اورکھل کر کچھ نہ کہہ سکا۔‘
عمران خان بمقابلہ ایلن بارڈر
شیفلڈ شیلڈ کے فائنل میں اسٹیو وا کے کھیلنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ میچ کے روزصبح انہیں معلوم ہوا کہ جیف لاسن فٹنس ٹیسٹ پاس نہیں کرسکے، تو اب وہ ٹیم کا حصہ ہوں گے۔ اس میچ کے بارے میں جو باتیں اسٹیو وا کی یادداشت کا حصہ رہیں، ان میں سے ایک کا تعلق عمران خان سے ہے۔

1999 کے ورلڈ کپ میں اسٹیو وا کی کپتانی میں آسٹریلیا نے پاکستان کو ہرایا۔ فوٹو: اے ایف پی

اسٹیو وا نے لکھا ہے کہ عمران خان اور ایلن بارڈر کے درمیان جو ایک ذاتی کشمکش چل رہی تھی، اس میچ میں کھل کر سامنے آگئی۔ دونوں ہی اس لڑائی کو پسند کرتے تھے۔ میچ کے دوران جب عمران خان، بارڈر کو بولنگ کروا رہے تھے تو ایک موقع پر وہ اچانک پچ کے درمیان جا کر کھڑے ہوگئے اور کھیل رک گیا۔ عمران نے کپتان ڈرک ویلہام سے تھرڈ سلپ میں کھڑے جان ڈائی سن کی پوزیشن تھوڑی تبدیل کرنے کو کہا۔ پھر وہ خود ہی فیلڈر کی طرف مڑے اوراس کی پوزیشن کو ری ایڈجسٹ کیا اوراس وقت تک بولنگ کے لیے نہ پلٹے جب تک ڈائی سن عین مین اسی جگہ پر جم نہ گئے جو عمران خان کے ذہن میں تھی۔
ایلن بارڈر نے خود کو پراعتماد ظاہر کرنے کے لیے یہی تاثر دینے کی کوشش کی جیسے عمران خان کے اس منصوبے سے متاثر نہیں ہوئے لیکن وہ عمران خان کی اگلی ہی گیند پر تھرڈ سلپ میں کیچ دے بیٹھے جس کے لیے فیلڈر کو اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہلنا نہ پڑا۔
عمران خان نےاس میچ میں نو وکٹیں حاصل کرکے نیو ساؤتھ ویلز کو فائنل میں کامیابی دلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ وزڈن نےاپنی رپورٹ میں عمران خان کی عمدہ کارکردگی کا خاص طور پرحوالہ دیا۔
1987ء ورلڈ کپ کا سیمی فائنل
1985ء میں عمران خان نے کب یہ سوچا ہوگا کہ ان کا یہ سیدھا سادہ، شرمیلا اور مہر بلب ٹیم میٹ دو برس بعد ان کے ہوم گراؤنڈ (لاہور) میں ان کی ایک ایسی  بڑی ناکامی میں اہم کردار ادا کرے گا جو پاکستانیوں کو رنجیدہ اور اداس کر دے گی۔

عمران خان کا ٹیم میٹ ورلڈ کپ کے فاتح کپتانوں کے کلب میں شامل ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

عمران خان کے بقول: ’میں نے پاکستانی شائقین کو اس قدر ناامید نہیں دیکھا جیسا کہ سیمی فائنل میں ہار جانے کے بعد دیکھا۔ میں ورلڈ کپ کے بارے میں ان کے جذبات اور احساسات کا پوری طرح اندازہ نہیں کرسکا تھا۔ سٹیڈیم سے گھر جاتے ہوئے بیشتر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔‘
1987ء کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 267 رنز بنائے ۔اسٹیو وا نے آخری اوور میں جو 18 رنز بنائے وہ پاکستان کو مہنگے پڑے۔ ان کا میچ میں تیزی سے 32 رنز بنانا آسٹریلیا کے لیے بہت سود مند ثابت ہوا۔  پاکستان کی طرف سے آخری اوور سلیم جعفر نے کیا جس میں جتنا سکور ہوا اتنے سکور سے پاکستان میچ ہار گیا۔
مبصرین نے شکست کا ملبہ سلیم جعفر پر ڈال دیا جبکہ ان کی جگہ کوئی اور بولر بھی ہوتا تب بھی اس کے اوور میں آٹھ دس رنز بنانا مشکل نہ تھا لیکن یہ اوور سلیم جعفر کے لیے داغِ ندامت بن گیا۔
اسٹیو وا نے اپنی کتاب میں سلیم جعفرسے سلوک کو قابل افسوس قرار دیا ہے۔ اسٹیو وا کی یہ بات البتہ درست نہیں کہ اس میچ کے بعد وہ بمشکل ہی کوئی میچ کھیلے۔ ورلڈ کپ سیمی فائنل کے بعد سلیم جعفر دس ٹیسٹ اور پندرہ ون ڈے میچوں میں قومی ٹیم کا حصہ رہے لیکن ان کی کارکردگی معمولی رہی جس کے باعث وہ ٹیم میں اپنی جگہ برقرار نہ رکھ پائے۔ 1992ء میں سری لنکا کے خلاف فیصل آباد ٹیسٹ ان کا آخری ٹیسٹ ثابت ہوا۔ 

1992 کے ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کو ہرا کر فتح کی راہ پر گامزن ہوئی۔ (فوٹو بشکریہ: اقبال منیر)

ورلڈ کپ سیمی فائنل میں شکست کا باعث سلیم جعفر ہی نہ تھے بلکہ کئی دوسری وجوہات  بھی تھیں، مثلاً ڈکی برڈ کا عمران خان کو غلط آؤٹ دینا۔ ڈکی برڈ جو عمران خان کے پسندیدہ امپائر ہیں، انھوں نے آگے چل کر اپنی غلطی تسلیم کی اورعمران خان سے معافی مانگی۔ اس میچ میں عبدالقادر کی گیند منہ پر لگنے سے سلیم یوسف زخمی ہو گئے اور میانداد کو ان کی جگہ وکٹوں کے عقب میں کھڑا ہونا پڑا۔
ریگیولر وکٹ کیپر نہ ہونے سے بھی پاکستان کو نقصان ہوا۔ مدثر نذر میچ سے پہلے ان فٹ ہو گئے اور یوں اوپنر کے ساتھ پاکستان ون ڈے کے عمدہ بولر سے بھی محروم ہو گیا۔ ان کی جگہ منصوراختر کو موقع دیا گیا جو صرف نو رنز بنا سکے۔ دوسرے اوپنر رمیز راجہ ایک رن پر رن آؤٹ ہو گئے جس سے مڈل آرڈر پر پریشر بڑھ گیا اور کریگ میکڈرمٹ کی بولنگ کے سامنے پاکستانی بیٹسمین زیادہ دیر ٹھہر نہ سکے۔ جاوید میانداد نے 70 رنز تو بنائے لیکن وہ اس دن اپنے اصل رنگ میں دکھائی نہیں دیے جس پر عمران خان نے اپنی کتاب میں حیرت کا اظہار کیا ہے۔
عمران خان کی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ
اس میچ کے بعد عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لی جو بعد ازاں صدر ضیا الحق کے کہنے پر واپس لے لی گئی۔ دلچسپ بات ہے کہ 1992 کا ورلڈ کپ جو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہوا اس میں ابتدائی میچوں میں خراب کارکردگی کے بعد پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کو ہرا کر فتح کی راہ پر گامزن ہوئی۔ ٹورنامنٹ میں آگے چل کر پاکستان کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے یہ ضروری ہو گیا کہ آسٹریلیا ،ویسٹ انڈیزکو شکست دے۔
آسٹریلیا نے یہ میچ جیت کر پاکستان کی سیمی فائنل میں رسائی ممکن بنائی جس پر اردو کے ایک بڑے قومی اخبار نے پاکستان کے سیمی فائنل میں پہنچنے کی خبر کی سرخی میں ’تھینک یو آسٹریلیا‘ کے الفاظ شامل کیے۔
1999 کے ورلڈ کپ میں اسٹیو وا کی کپتانی میں آسٹریلیا نے فائنل میں پاکستان کو ہرا کر ٹورنامنٹ جیت لیا اور پچاسی میں عمران خان کا ٹیم میٹ چودہ برس بعد ورلڈ کپ کے فاتح کپتانوں کے کلب میں ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔ 2011 میں ممبئی میں ورلڈ کپ کے فاتح کپتانوں کے اکٹھ میں عمران خان اور اسٹیو وا ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئے۔ سچ تو یہ ہے کہ ورلڈ کپ ہی نہیں دونوں کے دورِ کپتانی میں ان کی ٹیموں نے اور بھی کئی بے نظیر کامیابیاں حاصل کیں۔

شیئر: