Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان سفارتکاروں کو طالبان حکومت کی جانب سے دباؤ کا سامنا

طالبان کی حکومت کو کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔ فوٹو: روئٹرز
طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے والے افغان سفارت خانوں کو مالی مشکلات کے علاوہ کابل میں حکومتی عہدیداروں کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے کہ سابق حکومت کے سفارت کاروں کی جگہ حمایتیوں کو تعینات کیا جائے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سابق صدر اشرف غنی کی حکومت میں تعینات ہونے والے 60 کے قریب سفیروں یا دیگر سفارتی اہلکاروں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
اٹلی میں افغان سفیر خالد زکریا نے بتایا کہ طالبان کے حمایتیوں نے چند سفارتخانوں میں عملے کو دھمکیاں دی ہیں اور تشدد کا بھی نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ طالبان انتظامیہ نے انہیں بھی آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ سفارت خانہ نئی افغان حکومت کے لیے کام کرے تاہم انہوں نے انکار کر دیا۔
’میرا جواب تب تک یہی ہوگا جب تک کہ افغانستان میں ایک جامع نمائندہ حکومت نہ قائم ہو جس کا طالبان بھی حصہ ہوں۔‘
خیال رہے کہ ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا اور عالمی برادری کشمکش کا شکار ہے کہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کے ساتھ کس نوعیت کے سفارتی تعلقات رکھے جائیں۔
ناروے میں افغانستان کے سفیر یوسف غفورزئی نے کہا کہ ’انتہائی بدقسمت صورت حال کا سامنا ہے لیکن ان مشکل حالات میں بھی آپریشن جاری رکھنا ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انسانی امداد کے فروغ اور بین الاقوامی سطح پر صورتحال مستحکم کرنے میں سفارت خانوں کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔‘
ناروے میں افغان سفیر اور دیگر سفارتی عملے کا کابل میں حکومت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے اور کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی انہیں تنخواہیں نہیں دی گئیں

اکثر افغان سفارتخانوں میں عملے کو ستمبر سے تنخواہیں نہیں ملیں۔ فوٹو اے ایف پی

دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں افغان سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو آئندہ ہفتوں میں بند کر دیا جائے گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغان سفارت خانے اور قونصل خانے شدید مالی دباؤ میں ہیں، انہیں اپنے بینک اکاؤنٹس تک بھی رسائی حاصل نہیں ہے۔
عہدیدار نے مزید بتایا کہ افغان سفارت خانے کو بند کرنے کا عمل منطم طریقے سے کیا جائے گا تاکہ آپریشنز بحال ہونے تک افغان سفارت خانے کی پراپرٹی کو محفوظ رکھا جا سکے۔
دنیا بھر میں افغان سفارت خانوں کو اپنی سرگرمیاں محدود کرنے اور دیگر اخراجات کم کرنے کے علاوہ چھوٹی جگہوں میں منتقل ہونے کا کہا جا رہا ہے۔
اکثر افغان سفارت خانوں نے اپنے اخراجات چلانے کی غرض سے قونصلر فیس میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
گزشتہ سال اگست میں اشرف غنی کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے چند افغان سفیر اپنی مرضی سے عہدے سے دستبردار ہوئے جبکہ کچھ کو طالبان نے پوسٹ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ان کی جگہ پر طالبان نے اپنے نمائندے مقرر کیے ہیں لیکن ان سفارتخانوں کو بھی مالی مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان میں افغان سفارتی عملے کو گزشتہ سال ستمبر سے تنخواہ نہیں ملی۔ پشاور قونصل خانے کا عملہ پاسپورٹ، ویزہ اور میرج سرٹیفیکیٹ فیس سے حاصل ہونے والے رقم سے اپنے اخراجات چلا رہا ہے۔
ایک افغان اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان کی جانب سے تعینات کیے گئے قونصل جنرل کو صرف پچاس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے جبکہ اشرف غنی کی حکومت میں سابق قونصل جنرل کو تقریباً پانچ ہزار ڈالر ماہانہ ملا کرتے تھے۔

شیئر: