Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کسی کو شوق ہے تو آج حکومت سنبھال لے: آصف علی زرداری 

جمعے کو ہونے والے  قومی اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے میں جمعرات کی رات تحریک عدم اعتماد کو شامل کیے جانے کے بعد اپوزیشن نے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ سپیکر اس تحریک کو اجلاس کے پہلے دن پیش کرنے کی اجازت دیں گے۔  
اجلاس کا وقت دن گیارہ بجے تھا مگر اپوزیشن ارکان دس بجے سے بھی پہلے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ آصف علی زرداری جو موجودہ پارلیمنٹ میں کبھی کبھار اجلاس میں شرکت کرتے ہیں وہ بھی صبح صبح اجلاس کے لیے پہنچ گئے تھے۔  
صحافیوں کی نظریں سابق صدر زرداری پر ہی مرکوز تھیں کیونکہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا پرچم سب سے پہلے انہوں نے ہی اٹھایا تھا۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو بھی انہوں نے ہی عوامی تحریک کے بجائے ایوان کے اندر تبدیلی کے لیے قائل کیا۔  پھر وفاقی دارالحکومت کے سندھ ہاؤس میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کی میزبانی کا فیصلہ بھی آصف زرداری نے ہی کیا تھا۔ 
گویا اس وقت اپوزیشن کی جانب سے کنگ میکر کا کردار ان کا ہی تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی کچھ دن قبل کہا تھا کہ ’آصف زرداری بہت دیر سے میری’بندوق کی نشست ‘پر آئے ہوئے ہیں۔ بندوق کی شست بنیادی طور پر کسی شکار کو نشانے پر رکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ 
شاید یہی وجہ ہے کہ جمعے کو جب آصف زرداری اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے لیے ایوان میں پہنچے تو وہ صحافیوں کے ’سوالوں کی نشست‘ پر تھے۔ 
ان سے لگاتار کئی سوالات پوچھے گئے جس میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اٹھارویں ترمیم میں وہ خود ارکان کے منحرف ہونے کے خلاف آئینی ترمیم لے کر آئے تھے تو کیا اب انحراف کا تصور موجود ہے اس پر انہوں نے کچھ سوچ کر کہا کہ تصور کا سوال نہیں ہے حکومت کا ساتھ دینے کے لیے ’اتحادی بھی تو موجود ہیں۔‘ 
پھر ان سے پوچھا گیا کہ اگر غیر جمہوری قوتیں اس سیاسی صورتحال کا فائدہ اٹھاتی ہیں تو اس پر کیا حکمت عملی ہے؟ انہوں نے فورا جواب دیا کہ ’کسی کو اگر اتنا شوق ہے تو آج (حکومت) سنبھال لے‘۔ ان کی بدن بولی سے لگ رہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ کوئی غیر جمہوری قوت اس وقت حکومت سنبھالنے کی پوزیشن میں نہیں۔ 

مہمانوں کی گیلری میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، شیری رحمٰن سمیت اپوزیشن کے سینیٹرز بیٹھے تھے۔ فائل فوٹو: سکرین گریب

اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ اجلاس کمیٹی روم نمبر دو میں ہوا جہاں عام طور پر حکومتی اتحادیوں کا اجلاس ہوتا ہے مگر جمعے کو وہاں شہباز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے مولانا اسعد محمود اور سردار اختر مینگل اپنی جماعتوں کے ایم این ایز کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔ 
اپوزیشن کا اجلاس ختم ہوا تو دروازے پر کھڑے صحافیوں نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی مگر زیادہ تر ارکان نے بات کرنے سے گریز کیا۔ یہ بات سب نے نوٹ کی کہ خلاف توقع اپوزیشن ارکان اتنے ہشاش بشاش نظر نہیں آ رہے تھے جتنے ایک جیتی ہوئی ٹیم کے کھلاڑی لگتے ہیں۔ 
صرف سابق سپیکر ایاز صادق نے مختصر گفتگو کی اور بتایا کہ ’اپوزیشن  چاہتی ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی آج ہی تحریک عدم اعتماد پر کاروائی شروع کر دیں۔‘
اجلاس شروع ہوا تو پریس گیلری میں موجود ہر صحافی کی نظریں پی ٹی آئی کے ان منحرف اراکین کو ڈھونڈ رہی تھیں جنہوں نے چند دن قبل سندھ ہاؤس میں کھل کر وزیراعظم عمران خان پر تنقید کی تھی اور ان کے خلاف ووٹ دینے کا عندیہ دیا تھا۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی وہاں نظر نہیں آیا۔ 
اپوزیشن کے 159 ارکان اور جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی اپوزیشن بینچوں پر موجود تھے جبکہ حکومتی بینچوں پر چند وزرا سمیت سو سے بھی کم ارکان نظر آئے۔
مہمانوں کی گیلری میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، شیری رحمٰن سمیت اپوزیشن کے سینیٹرز بھی خصوصی طور پر آئے ہوئے تھے۔ 
اجلاس میں قومی ترانے کے بعد عام طور پر ارکان پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں مگر آج پی ٹی آئی کی زرتاج گل نے عمران خان زندہ باد کا نعرہ بھی لگایا جس کا جواب چند پی ٹی آئی ارکان نے دیا۔ 
پریس گیلری میں موجود ایک سینئیر صحافی عاصم یاسین کا کہنا تھا کہ عام طور پر کسی رکن کی وفات پر اسمبلی میں تعزیتی قرارداد بھی پیش کی جاتی ہے اور ارکان اظہار خیال بھی کرتے ہیں مگر آج شاید سپیکر کارروائی جلد از جلد ختم کرنا چاہتے تھے اس لیے باقی روایات کو بھول گئے۔ 
اجلاس کے بعد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے  کہا کہ ’سپیکر نے آج تو اجلاس معطل کر دیا ہے مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔‘

شیئر: