Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بدلتی سیاسی صورتحال: کیا چوہدریوں کے ہاتھ سے سیاسی گیم نکل گئی؟

وزیراعظم عمران خان نے بھی لاہور چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہیٰ سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
بدھ کو ایم کیو ایم کی جانب سے متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کے اعلان کے بعد پاکستانی سیاست کی صورت حال یکسر بدل گئی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اب نہ تو پرویز الٰہی تحریک عدم اعتماد کے خلاف عمران خان کی کوئی مدد کر سکتے ہیں بلکہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کرنا بھی ان کے لیے مشکل ترین ہو چکا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ’ق لیگ نے جلدی میں فیصلہ کیا، شاید انہیں اندازہ نہیں تھا کہ صورتحال بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا تو میرے خیال میں انہیں یہ بتایا گیا ہوگا کہ ایم کیو ایم بھی کہیں نہیں جا رہی لیکن ان کی اپنی جماعت کے لیے یہ درست سیاسی فیصلہ ثابت نہیں ہوا۔ ان کے مقابلے میں ایم کیو ایم کی پوزیشن بہتر رہی۔‘
خیال رہے کہ موجودہ سیاسی بحران میں دو دفعہ ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ گجرات کے چوہدریوں کے ہاتھ سے سیاسی گیم بالکل نکل گئی۔
ایک مرتبہ ایسی صورتحال کا سامنا ان کو اس وقت کرنا پڑا جب اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف خود چل کر ان کے گھر گئے۔ وزیراعظم عمران خان بھی اس کے بعد لاہور میں واقع ان کی رہائش گاہ پہنچے۔
تاہم اس سے پہلے کہ چوہدری برادران کوئی فیصلہ کرتے، تحریک انصاف کے اندر ہی پھوٹ پڑ گئی اور علیم خان نے ہم خیال گروپ بنانے کا اعلان کر دیا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس تبدیلی سے ق لیگ کی بارگیننگ پوزیشن کمزور ہوئی تھی۔
اب دوسری مرتبہ صورتحال یہ ہے کہ ’مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ کے مطابق پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد چوہدری پرویز الہیٰ کے ایما پر لائی گئی۔‘

عثمان بزدار کو ووٹ دینے کے بدلے میں پرویز الہیٰ کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنا دیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

’تحریک لانے سے پہلے پرویز الہیٰ اپوزیشن کے ساتھ گہرے رابطوں میں تھے مگر جیسے ہی قرارداد لائی گئی پرویز الہیٰ نے بنی گالہ میں وزیراعظم سے ملاقات کر کے دوران اچانک حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بدلے میں انہیں پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کر دیا گیا۔‘
تو کیا اب پرویز الہیٰ پنجاب کے وزیراعلیٰ بن سکیں گے؟ تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ’اب یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اب عمران خان کی وزارت عظمٰی خود ہچکولے لے رہی ہے۔ جو اپوزیشن اس وقت نمبر گیم دکھا رہی ہے اس میں تو وزیر اعظم ووٹوں کی گنتی کے بعد تو وزیراعظم رہتے دکھائی ہی نہیں دیتے۔‘
’سوال یہ ہے کہ اپنی وزارت عظمیٰ ختم ہونے کے بعد کیا اب عمران خان پنجاب میں ساری توانائیاں پرویز الہیٰ کو وزیراعلیٰ بنانے میں لگائیں گے؟ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ شاید وزیراعظم اس نامزدگی پر بھی دوبارہ غور کریں کیونکہ اب وہ صورت حال رہی ہی نہیں جس کی بنیاد پر انہوں نے چوہدری پرویز الہیٰ کو وزیراعلیٰ نامزد کیا تھا۔‘
خیال ریے کہ پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 اراکین پر مشتمل ہے جبکہ حکومت بنانے کے لیے کسی بھی پارٹی کو 186 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔
سردار عثمان بزدار 194 ووٹوں سے وزیراعلی پنجاب منتخب ہوئے تھے۔ ق لیگ نے اپنے 10 ووٹوں سے ان کو سپورٹ کیا تھا جس کے بدلے میں پارٹی کے صدر پرویز الہیٰ کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنا دیا گیا تھا۔

پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 اراکین پر مشتمل ہے۔ (فائل فوٹو: پنجاب اسمبلی)

پنجاب اسمبلی کے اندر پارٹی پوزیشن یہ ہے کہ حکومتی اتحاد میں تحریک انصاف کے پاس 183 اراکین ہیں۔ ق لیگ کے پاس 10 اور راہ حق میں پارٹی کے پاس ایک رکن ہے۔
اپوزیشن اتحاد میں مسلم لیگ ن کے پاس 165 اور پیپلز پارٹی کے پاس سات اراکین ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پرویز الہٰی کا وزیراعلیٰ پنجاب بننا بالکل بھی مشکل نہیں لیکن اب نہ تو حالات 2018 والے ہیں نہ سیاست پہلے جیسی ہے۔
جبکہ حکومت کے اپنے ناراض اراکین جن میں جہانگیر ترین گروپ اور علیم خان گروپ شامل ہیں، نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے۔

شیئر: