Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عثمان بزدار کا استعفی منظور، پنجاب اسمبلی کا اجلاس کل طلب

پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 130 کے تحت نئے قائد ایوان کا انتخاب ہوگا (فوٹو: اے پی پی)
پنجاب کے گورنر چوہدری سرور نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کر لیا ہے جبکہ نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے دو اپریل کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے۔
جمعے کو گورنر پنجاب کی جانب سے جاری کیے گئے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’پنجاب اسمبلی کا اجلاس دو اپریل کو طلب کیا جاتا ہے۔ یہ اجلاس اپنے نئے قائد ایوان کا انتخاب کرے گا۔‘
خیال رہے کہ اس سے پہلے اپوزیشن نے سردار عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی لیکن وزیراعظم عمران خان نے سردار عثمان بزدار کو مستعفی ہونے کا کہہ دیا تھا اور وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے چوہدری پرویز الہی کو نامزد کر دیا تھا۔
نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب کیسے ہوگا؟
پنجاب اسمبلی میں دلچسپ صورتحال یہ بھی ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی خود بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔
سیکریٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی کے مطابق سنیچر دو اپریل کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی صدارت میں ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ اجلاس کی کاروائی آگے بڑھاتے ہوئے سپیکر ایوان کو مطلع کریں گے کہ اس وقت لیڈر آف دی ہاؤس نہیں ہیں تو ان کے انتخاب کے لیے انتخابی شیڈول جاری کر رہے ہیں۔
عام طور پر لیڈر آف دی ہاؤس کا انتخاب شیڈول جاری ہونے کے اگلے روز ہوتا ہے، جس میں امیدوار اپنے کاغذات جمع کراتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس کی صدارت ڈپٹی سپیکر کریں گے کیونکہ سپیکر خود بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہوں گے۔
سیکریٹری اسمبلی کے مطابق ’سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کو وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں حصہ لینے کے لیے استعفیٰ دینے کی ضرورت نہیں۔ سپیکر انتخاب میں استعفے دیے بغیر بھی حصہ لے سکتا ہے۔ اس کے بعد اگر وہ انتخاب جیت جائیں تو ان کو ایک عہدہ رکھنا ہوتا ہے لہذا اگر پرویز الہی لیڈر آف  دی ہاؤس منتخب نہیں بھی ہوتے تو وہ سپیکر رہیں گے۔‘
دوسری طرف اپوزیشن کی جانب سے ابھی تک وزارت اعلیٰ کے لیے کسی کا نام سامنے نہیں آیا ہے۔
پنجاب اسمبلی میں صورتحال اس لیے بھی قومی اسمبلی کے مقابلے میں مختلف ہے کیونکہ یہاں پر اپوزیشن کی صرف دو ہی جماعتیں ہیں جو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہیں۔ وہ پہلے ہی حکمراں جماعت کے خلاف اکٹھی ہیں لیکن وزارت اعلیٰ کے لیے ان کے پاس نمبر گیم کم ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما علیم خان نے اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے اور ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے پاس پنجاب اسمبلی کے 20 کے قریب ایم پی ایز ہیں۔
جہانگیر خان ترین گروپ نے بھی تحریک انصاف میں اپنا ایک ہم خیال گروپ بنا رکھا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس بھی 20 کے قریب اراکین صوبائی اسمبلی ہیں لیکن انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ کوئی بھی فیصلہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کے بعد کیا جائے گا۔

عثمان بزدار اقتدار میں کیسے آئے اور کیسے گئے؟

یاد رہے کہ پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے جہاں وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی وہیں پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی۔
لیکن وزیراعظم نے اپنے خلاف تحریک کو ناکام بنانے کے لیے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی کرسی کی قربانی دے دی۔
وزیراعظم عمران خان متعدد بار عثمان بزدار کو بہترین وزیراعلی قرار دیتے ہوئے انہیں وسیم اکرم پلس بھی قرار دیتے رہے ہیں۔
پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازہ خان کی تحصیل تونسہ سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار 2018 میں پہلی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ عثمان بزدار تونسہ اور بلوچستان کے قبائلی علاقے میں آباد بزدار قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
سردار عثمان بزدار کے والد سردار فتح محمد خان اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ وہ تین مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہوں نے ایک سکول میں استاد کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ 
عثمان بزدار نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر کیا اور وہ 2008 تک مسلم لیگ ق کے تحصیل ناظم رہے۔
2008 میں انہوں نے مسلم لیگ ق چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن میں حصہ لیا تاہم ناکام رہے۔ 
 2018 کے عام انتخابات سے قبل انہوں نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شمولیت اختیار کی لیکن انتخابات سے قبل خسرو بختیار کی سربراہی میں بننے والا یہ گروپ تحریک انصاف میں ضم ہوگیا۔ 
عثمان بزدار میڈیا اور خبروں سے دور رہنے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں اور وزیراعظم عمران خان متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ عثمان بزدار میڈیا پر نہیں آتے اس لیے ان کے کاموں کو پذیرائی نہیں ملتی۔ 

شیئر: