انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں ’ہندو مہاپنچایت‘ نامی تقریب میں دائیں بازو کی جماعتوں کے حامیوں نے مختلف میڈیا اداروں کے صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
انڈین میڈٰیا آؤٹ لیٹ ’دا کوئنٹ‘ کے مطابق اتوار کو ’ہندو مہاپنچایت‘ کے موقع پر وہاں رپورٹنگ کے لیے پہنچنے والے صحافیوں پر دائیں بازوں کے انتہاپسندوں نے حملہ کیا اور ان کی رپورٹر کے ساتھ بھی بدتمیزی گئی۔
رپورٹ کے مطابق پولیس نے وہاں موجود پانچ صحافیوں کو مکھرجی نگر تھانے منتقل کیا۔ پولیس سٹیشن منتقل کیے جانے والے پانچ صحافیوں میں سے تین صحافی مسلمان ہیں۔
مزید پڑھیں
-
انڈین صحافی رعنا ایوب کو سوشل میڈیا پر قتل اور ریپ کی دھمکیاںNode ID: 640611
-
انڈیا: سکالرز اور سماجی کارکنان کی حجاب پر پابندی پر تنقیدNode ID: 658121
دہلی پولیس کی سینیئر افسر اوشا رنگانی کے مطابق پولیس اہلکار شکایت ملنے پر فوراً ’ہندو مہاپنچایت‘ پہنچی اور صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنایا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس تقریب کے منتظمین، دو ہندو رہنماؤں اور دائیں بازو کے جماعت کے حامی ٹی وی چینل ’سدھرشن نیوز‘ کے چیف ایڈیٹر کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ ان پر تقریب میں اشتعال انگیز تقاریر کرنے کا الزام ہے۔
انڈین صحافی محمد سلمان کے مطابق ’میرے دوست ارباب علی اور دو مزید صحافیوں میر فیصل اور محمد مہربان پر دائیں بازو کے گروہوں کے اراکین نے دہلی کے علاقے براری میں ہندو مہاپنچایت میں حملہ کیا گیا اور انہیں ہراساں کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تینوں ’ہندو مہاپنچایت‘ کی کوریج کے لیے گئے تھے۔
’ان کے کیمرے اور فونز چھین لیے گئے اور انہیں جہادی قرار دیا گیا۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو صحافیوں کو ان کا کام کرنے سے روکا گیا اور ان پر حملہ کیا گیا۔‘
Their Cameras and Phones were snatched and called Jihadis. This is not the first time, Journalists were stopped from doing their jobs and attacked.
— Mohammad Salman (@salmanm94) April 3, 2022
انڈین صحافی رانا ایوب نے ایک ٹویٹ میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے والے صحافیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ دنیا انڈین صحافیوں خصوصاً مسلمان صحافیوں پر ہونے والے حملوں کو دیکھ رہی ہیں۔‘
I hope the world is watching this attack on Indian journalists, especially Muslim journalists. Thoughts with each one if you. Solidarity and tonnes of strength and courage https://t.co/T31mzmQ6DH
— Rana Ayyub (@RanaAyyub) April 3, 2022