Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خوش ہیں اور اُداس بھی‘ جان بچا کر امریکہ پہنچنے والے افغانوں کی پہلی افطاری

افطاری کے بعد ولایت خان اور بچوں نے وہیں پر نماز ادا کی (فوٹو: اے پی)
لاس کروسیس میں شام ہونے کو ہے، ایک اپارٹمنٹ میں چند لوگ کھانے پینے کا سامان سامنے رکھے بیٹھے ہیں۔ جن میں ایک مرد ایک خاتون اور چھ بچے ہیں، جو سورج غروب ہونے کا انتظام کر رہے ہیں۔ یہ ہیں ولایت خان صمدزئی اور ان کا کنبہ جو افغانستان سے یہاں پہنچے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق ولایت خان صمدزئی نے پہلا روز طالبان کے خطرات سے بہت دور کھولا تاہم اگر وہ اس وقت افغانستان میں اپنے علاقے خوست میں ہوتے تو پہلا روز اپنے تین درجن رشتہ داروں کے ساتھ کھولتے۔
خمیری روٹی کو پھلیوں کے شوربے میں ڈبو کر کھانے کے بعد ولایت خان اور ان کے بچوں نے وہیں نماز پڑھی اور اس چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں دعاؤں کی آوازیں گونجتی رہیں۔
 ولایت شاہ نے پشتو میں جو کچھ کہا اس کا ترجمہ ان کے کزن نور رحمان فقیر نے بتایا، انہوں نے افغانستان میں امریکیوں کے ساتھ کام کی وجہ سے کچھ انگریزی سیکھ رکھی ہے۔
’میں ان لیے دعا کرتا ہوں، وہ میرے لیے کرتے ہیں، میں ان کو یاد کرتا ہوں اور وہ مجھے یاد کرتے ہیں۔‘
افغانستان میں طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بہت سے افغان خاندانوں نے امریکہ چلے آئے۔ مختلف علاقوں میں رہائش پذیر یہ لوگ رمضان کا استقبال کر رہے ہیں اور تھوڑی دیر قبل ہی انہوں نے پہلے روزے کی افطاری کی ہے۔

میکسیکو کی سرحد کے قریب علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں افغان اپنے خاندانوں کے ہمراہ موجود ہیں (فوٹو: اے پی)

تاہم وہ اپنے پیاروں سے دور ہونے کی وجہ سے اداس بھی ہیں۔
شہری علاقے سے باہر اور میکسیکن بارڈر سے 64 کلومیٹر کی دوری پر واقع اس مقام پر ہزاروں کی تعداد میں موجود افغان کسی بات پر خوش بھی ہوتے ہیں تو جلد ہی انہیں ایک چیز تشویش میں ڈال دیتی ہے جو ہے عارضی امیگریشن سٹیٹس،
ان کو کام کا معاوضہ بھی کم ملتا ہے، جس کی وجہ سے اپنے خاندان والوں کا خیال رکھنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
عبدالامیر قاری زادہ کو وہ ساڑھے چار بجے کا وقت اب بھی یاد ہے جب ان کو افراتفری میں جہاز پر سوار ہونا پڑا کیونکہ طالبان پہنچ رہے تھے، ان کو اتنا بھی وقت نہیں ملا کہ پانچ بچوں کو ساتھ لے سکتے۔

امریکہ میں موجود افغان اپنے ان رشتہ داروں کو یاد کرتے ہیں جو افغانستان سے نہیں نکل سکے (فوٹو: اے پی)

ان کے بچے سات ماہ سے افغانستان میں ہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’مجھے فکر ہو رہی تھی کہ جس جہاز میں، میں تھا وہ محفوظ تھا، مگر میری فیملی محفوظ نہیں تھی۔‘
28 سالہ قیس شریف کہتے ہیں کہ وہ سو نہیں پاتے۔
’مجھے اپنے بچوں کی فکر رہتی ہے، جو وہیں رہ گئے ہیں، جن میں میری وہ بیٹی بھی شامل ہے، جو میرے افغانستان سے نکلنے کے دو ماہ بعد پیدا ہوئی۔‘
یہ لوگ میکسیکو سٹیٹ یونیورسٹی میں افطار کا اہتمام کیے جانے پر بہت خوش ہیں، جہاں غباروں کی مدد سے ’رمضان کریم‘ بھی لکھا گیا ہے۔
مقامی لوگ افغانوں کو کام کی تلاش اور انگریزی سیکھنے میں مدد دے رہے ہیں۔

افطاری کے بعد وہیں اپارٹمنٹ میں نماز پڑھی گئی اور دعا مانگی گئی (فوٹو: اے پی)

افغانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ میں زیادہ تر افغانوں کے پاس مستقل قانونی سٹیٹس نہیں ہے حالانکہ انہوں نے نائن الیون کے بعد افغان جنگ کے دوران امریکی حکومت کے لیے مختلف اداروں میں کام کیا۔
قاری زادہ آج بھی اپنے والدہ کے ہاتھ کی بنی ڈش بالونی کو یاد کرتے ہیں جو ایک بڑے سموسے کی طرح ہوتی ہے۔
شیر خان نجات کی ماں اب بھی رونا شروع کر دیتی ہیں جب وہ انہیں اوکلاما سے وٹس ایپ ذریعے کال کرتے ہیں۔
وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ یہاں منتقل ہوئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس بات پر خوش ہیں کہ وہ محفوظ ہیں تاہم ان کو وہ رمضان یاد آتے ہیں جو انہوں نے اپنے گھر والوں کے ساتھ منائے۔

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آتے ہی بہت بڑی تعداد میں افغانوں نے ملک چھوڑ دیا تھا (فوٹو: اے پی)

ٹیکساس میں موجود داؤد کو بھی اپنے گھر کے وہ دن یاد آتے ہیں جب وہ سب مل کر روزہ کھولا کرتے تھے۔
اس کی منظر کشی وہ کچھ کرتے ہیں۔ والد کھانا آگے بڑھانے کا کہتے ہیں تو والدہ انہیں ذرا صبر کرنے کا مشورہ دیتیں۔ بچے کبھی کھانے پینے کی چیزوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے اور کبھی آپس میں لڑتے۔ اس کے ساتھ ہی جیسے ’اللہ اکبر‘ کی آواز آتی سب مل کر روزہ افطار کرتے۔
کابل میں امریکہ کے سفارت خانے میں بطور ترجمان کام کرنے والے داؤد کہتے ہیں کہ رمضان کا ہر روز کرسمس کی طرح کا ہوتا تھا۔

شیئر: