Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مملکت میں غیرملکیوں کے کھانے ’روایات کو زندہ رکھنے کا ایک ذریعہ‘

سعودی عرب میں غیر ملکی کھانوں کے ذریعے اپنی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)
رمضان کی بیشتر خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس مہینے میں مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی افطار کے بہانے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ 
مملکت میں رہنے والے بیشتر غیر ملکی بھی افطار کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں جہاں انہیں اپنی مقامی ڈشز اور ان سے وابستہ روایات متعارف کروانے کا موقع ملتا ہے۔
سعودی عرب میں گزشتہ بارہ سال سے رہائش پذیر ارشین فاطمہ نے عرب نیوز کو بتایا کہ کھانوں کے ذریعے ہی انسان اپنے آبائی ملک سے جڑا رہتا ہے۔
’اپنے گھر سے دور دوسرے گھر میں روزہ افطار کرتے ہوئے پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔‘
ارشین فاطمہ کا تعلق انڈیا کے شہر چنائی سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انڈیا میں مختلف رسم و رواج کے لوگ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ رمضان میں ہر شہر کے اپنے منفرد پکوان ہوتے ہیں۔
ارشین کا کہنا تھا کہ ’جب آپ ایک دوسرے ملک میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں تو آپ کے بچے تو وہیں کے ماحول کے عادی ہو جاتے ہیں اور آسانی سے خود کو ڈھال لیتے ہیں، تو ہمارے لیے اپنے روایتی کھانوں کے ساتھ جڑے رہنا ہی سکون کا ذریعہ ہوتا ہے۔‘
ارشین فاطمہ نے بتایا کہ روایتی کھانوں میں وہ گانجی نامی سوپ بناتی ہیں جو چاول اور دالوں سے بنتا ہے۔
جب ارشین سے پوچھا گیا کہ ان کے روایتی کھانوں اور سعودی کھانوں میں کوئی مماثلت ہے تو انہوں نے انتہائی پرجوش ہو کر کہا کہ بالکل ہے اور سعودی عرب ان کا دوسرا گھر ہے۔

سعودی عرب میں غیر ملکی مقامی انداز میں ہی افطار کرنا پسند کرتے ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)

سعودی عرب میں گزشتہ 22 سال سے رہنے والی ڈاکٹر کیفایا افتخار کا کہنا ہے کہ ’افطاری کا میز ایسا ہونا چاہیے جو صحت اور خوشی کے درمیان توازن فراہم کرے۔‘ 
سری لنکا سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر کیفیا نے اپنی روایتی افطاری کے بارے میں بتایا کہ اس میں زیادہ تر کھٹی میٹھی اشیا شامل ہوتی ہیں جن میں کٹلس، رولز اور پیٹیز کے علاوہ گلابی رنگ کا مشروب بھی افطاری کی میز کی زینت ہوتا ہے۔
سعودی عرب میں رہنے اور کام کرنے والے غیر ملکیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سعوی انداز میں روزہ کھولا جائے۔
امریکی چیمبر آف کامرس حنا نیمیک نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’بطور ایک امریکی جس نے اسلام قبول کیا ہے اور جو سعودی عرب میں رہ رہی ہے، مجھے تو سعودی کھانوں سے بہت زیادہ پیار ہونے لگا ہے۔‘
حنا کا کہنا تھا کہ امریکی کھانے انہیں افطار کے لیے بالکل مناسب نہیں لگتے۔
’افطار کا کھانا ہم سب کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ روزے کے بعد شکر ادا کرنے کا یہ پہلا موقع ہوتا ہے۔‘

شیئر: