Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زرداری کی ’مفاہمتی زبان‘ جس نے حکومت کو گھر بھیجا

اپوزیشن کی صفوں میں انتشار کے بعد کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہی جماعتیں عمران خان کو زیر دام لے آئیں گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
تقریباً ایک برس قبل 16 مارچ 2021 کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اجلاس میں آصف علی زرداری نے بغیر نام لیے نواز شریف کی ملک واپسی کی بات کی۔ ساتھ ہی انہوں نے اپوزیشن رہنماؤں کو متبادل طریقہ کار اختیار کرنے پر قائل کرنا چاہا۔
ان دنوں ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان حکومت کے خاتمے کی حکمت عملی پر اختلاف اور بداعتمادی کا ماحول بن چکا تھا۔
مسلم لیگ نون اور مولانا فضل الرحمان 27 مارچ 2021 کو لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کو حکومت سے نجات کا آخری اور فیصلہ کن حل سمجھتے ہوئے اس پر ڈٹ چکے تھے۔
اپوزیشن جماعتوں کے اس اتحاد کی مشترکہ منزل اور مستقبل اس وقت تاریک دکھائی دینے لگا جب اجلاس کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کر اٹھ گئے۔
حکومت مخالف جماعتوں کی صفوں میں انتشار کے ماحول میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پورے ایک سال بعد یہی جماعتیں اپنے سیاسی حریف عمران خان کو زیر دام لے آئیں گی۔ وہ بھی اس طرح کہ اتحادیوں کا ساتھ ہی نہیں چھوٹے گا بلکہ اپنے ممبران اسمبلی بھی چھوڑ جائیں گے۔
جب پی ڈی ایم میں شامل اکثریتی جماعتوں کے قائدین لانگ مارچ اور استعفوں کو ٹرمپ کارڈ قرار دے رہے تھے، اس کے برخلاف ایک شخصیت نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ’کبھی ہم سے بھی سیاست سیکھ لیا کریں۔‘
کیا سابق صدر آصف علی زرداری کے کہے ہوئے یہ الفاظ حکومت کی رخصتی کے ایک متبادل اور ممکنہ طریقہ کار کا ابتدائی اشارہ قرار دیے جا سکتے ہیں؟

مسلم لیگ ن کے لیے یہ پہلا موقع نہیں ہے جب آصف زرداری کے سیاسی مشورے اور معاونت نے ان کے لیے اقتدار کا دروازہ کھولا ہو۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آصف زرداری اپنے سیاسی حلیفوں میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے برعکس سیاسی فتح کے لیے ترپ کا جو پتا سینے سے لگائے بیٹھے تھے اس نے کام دکھا دیا ہے۔
نوابزادہ نصراللہ خان کی ساری زندگی اتحاد بنانے، سیاسی تحریکیں شروع کرنے اور حکومتیں گرانے میں گزری۔ مخالفین کو ساتھ ملانے کا ملکہ ہی تھا جس کے بل بوتے پر انہوں نے ایوب خان سے مشرف تک کی حکومتوں کے خلاف احتجاجی تحریکیں منظم کیں۔
نوابزادہ نصراللہ خان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد کیا ہم آصف علی زرداری کو اس روایت کا نیا نام اور نمائندہ قرار دے سکتے ہیں؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں منظم ہونے والی احتجاجی تحریکوں اور سیاسی اتحادوں کی ایک قدر مشترک اور خاصہ رہی ہے، وہ ہے تبدیلی کی تحریکوں کا طویل احتجاج ، تشدد، توڑ پھوڑ اور آخر میں حکومت وقت کی رخصتی کا غیر آئینی انداز اور طریقہ کار۔
وزیراعظم عمران خان کی اقتدار کے ایوانوں سے رخصتی ظاہر کرتی ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب سڑکوں پر صدائے احتجاج اور ہنگاموں سے نظام زندگی معطل ہوئے بغیر منتخب ایوان کی مرضی سے حکومت گھر جائے گی۔
تحریک عدم اعتماد کے آئینی طریقہ کار کے تصور کی صورت گری کا معمار اگر آصف علی زرداری کو قرار دیا جائے تو اس پر یقین کی کئی وجوہات ہیں۔
گزشتہ سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات حکومت کے لیے ایوان بالا میں عددی اکثریت میں اضافے کی وجہ سے آئینی اور جمہوری مضبوطی کا ذریعہ بننے والے تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی 2008 میں بننے والی حکومت کے بعد آصف علی زرداری کی مشہور زمانہ مفاہمت کی سیاست کے جوہر کھلے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مگر یوسف رضا گیلانی کی غیرمتوقع جیت نے تحریک انصاف کی ہر حوالے سے مضبوط سمجھی جانے والی حکومت کی فصیل میں چھوٹا سا شگاف ڈال دیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے فیصلوں سے لاتعلقی کی وجہ سے 27 مارچ 2021 کا مجوزہ مارچ ملتوی ہوا تو مخالفین نے اس پر شادیانے بجائے۔
پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے اپوزیشن اتحاد سے علیحدگی سے بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ حکومت مخالف جماعتوں کے پاس آئندہ انتخابات کی تیاری کے سوا اقتدار میں آنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔
مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کی جارحانہ اور تلخ تنقید سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کے اشتراک کے بغیر اپنی جنگ علیحدہ لڑنا چاہتے ہیں۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن احتجاج کے بجائے اپنے اندر وقتی تبدیلی لا کر انتظار کی پالیسی پر گامزن ہوگئے تھے۔
گزشتہ برس کے آخری ہفتے میں ذوالفقارعلی بھٹو کی برسی کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے جب پانچ جنوری کو لاہور سے حکومت کے خاتمے کی کہانی شروع کرنے کا اعلان کیا تو اسے محض سیاسی اعلان گردانا گیا۔
قومی اسمبلی میں منی بجٹ اور سٹیٹ بینک کے قانون سازی کے بلوں کی منظوری کے بعد لگ رہا تھا کہ اسمبلی کے اندر حکومت کے لیے سب اچھا ہے۔
پیپلزپارٹی کا 27 فروری اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا 23 مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان ہو چکا تھا۔ جسے سیاسی حلقوں میں تقسیم شدہ حکومتی مخالفین کا الگ الگ  شو آف پاور قرار دیا جا رہا تھا۔
رواں برس پانچ فروری کو اچانک آصف علی زرداری بلاول بھٹو کے ہمراہ شہباز شریف کے گھر پہنچ گے۔ جس نے سیاست کے بظاہر پرسکون پانیوں میں ’تحریک عدم اعتماد‘ کا ایسا پتھر پھینک دیا جس کی لہروں نے حکومتی اتحاد کے لیے طوفان اٹھا دیا، جس کی زد میں وفاقی اور پنجاب کی حکومتیں آ گئیں۔

سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کی غیرمتوقع جیت نے مضبوط سمجھی جانے والی حکومت کی فصیل میں چھوٹا سا شگاف ڈال دیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

شہباز شریف اور ان کے فرزند کے لیے مرکز اور صوبے میں اقتدار کا امکان پیدا ہو چکا ہے۔
مسلم لیگ ن کے لیے یہ پہلا موقع نہیں ہے جب آصف زرداری کے سیاسی مشورے اور معاونت نے ان کے لیے اقتدار کا دروازہ کھولا ہو۔
سنہ 2008 کے انتخابات سے قبل نواز شریف کی جماعت اے پی ڈی ایم کا حصہ بن کر انتخابات کو لاحاصل قرار دے کر بائیکاٹ کا راستہ اختیار کر چکی تھی۔
ایسے میں آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو انتخابی عمل میں شرکت پر قائل کیا۔ جس نے بعد میں مسلم لیگ ن کے لیے پنجاب میں اقتدار کی راہ ہموار کی۔ا س کا تسلسل 2013 کے انتخابات میں مرکز میں بھی حکومت کے حصول میں مددگار ثابت ہوا۔
تحریک عدم اعتماد کے لیے مختلف الخیال سیاسی قوتوں کو حکومتی مراعات سے اپوزیشن کی مشکل بھری صفوں میں لانے کے لیے آصف علی زرداری کام کر رہے تھے۔ ان کی اس صلاحیت کے پیچھے عملی سیاست کی تفہیم کا وہ درس ہے جو کئی برسوں کے تجربات سے حاصل کیا گیا ہے ۔
بے نظیر بھٹو کی زندگی میں آصف زرداری نے جو وقت جیل کی سلاخوں کے باہر گزارا اس میں ان کا کردار پس منظر میں رہ کر حکمت عملی وضع کرنے کا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی 2008 میں بننے والی حکومت کے بعد آصف علی زرداری کی مشہور زمانہ مفاہمت کی سیاست کے جوہر کھلے۔ سابق صدر پرویز مشرف سے گلوخلاصی کے بعد دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ اشتراک اور تعاون کا راستہ اختیار کیا۔
اس میں بیشتر وہ سیاسی جماعتیں تھیں جس کے ساتھ ماضی میں پیپلز پارٹی کا بدترین سیاسی دشمنی کا طویل پس منظر موجود تھا۔
کون سوچ سکتا تھا کہ ایک روز چوہدری ظہور الہیٰ کا خاندان پیپلزپارٹی کے وارثوں کے ساتھ شریک اقتدار ہوگا۔

اپوزیشن جماعتوں کے ایک اجلاس کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کر اٹھ گئے تھے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح ولی خان کی جماعت اور پیپلز پارٹی کے درمیان پرتشدد مخاصمت کو بھول کر سیاسی یکجائی میں آصف علی زرداری کا تلخیاں بھول کر آگے بڑھنے کا فلسفہ کارفرما تھا۔
ان سب سے بڑھ کر مسلم لیگ ن بالخصوص شریف خاندان اور بھٹو فیملی کے درمیان سیاسی انتقام اور نفرت کے دو دہائیوں پر مشتمل سفر میں مفاہمت کا موڑ بھی انہی کے مرہون منت تھا۔
موجودہ حکومت سے متحدہ قومی موومنٹ کی علیحدگی پر بھی آصف علی زرادی نے کام کیا اور انہیں رام اور راضی کرنے کے لیے پیپلز پارٹی نے صوبہ سندھ میں اقتدار اور اختیار میں شرکت کی یقین دہانی کروائی اور معاہدہ کیا۔
پاکستان میں حکومتوں کی رخصتی کے ہنگام ہمیشہ سے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے جارحانہ انداز، جلوسوں کا غلغلہ اور سڑکوں کو احتجاج سے آباد رکھنے کی روایت رہی ہے۔
مگر تحریکِ انصاف کی حکومت نے اپنی سیاسی حکمت عملی کے برعکس اپوزیشن کا روپ دھار لیا ہے۔ پہلی بار ایک حکومتی جماعت احتجاجی جلسے اور جلوسوں کی سیاست پر آمادہ ہے۔
بیرونی سازش کے نعرے اور اپوزیشن رہنماؤں کی ذاتی زندگیوں پر حملوں سے یوں گمان ہوتا ہے کہ حکومت درحقیقت اپوزیشن ہے۔
ان حالات میں اگر اپوزیشن لانگ مارچ اور دھرنوں کے بجائے قومی اسمبلی میں اکثریت کے ذریعے حکومت کو سرکاری بنچوں سے بے دخل کر دیتی ہے تو اس روایت شکنی میں دیگر عوامل اور کرداروں کے ساتھ آصف علی زرداری کی سیاسی مہارت اور درست وقت کے انتخاب کا بھی بھرپور کردار ہے۔
ان کا سب سے بڑا ہتھیار مفاہمت بھری زبان ہے۔
صحافی مجید نظامی نے آصف زرداری کو آٹھ سال بہادری سے جیل کاٹنے پر مرد حر کہا تھا۔
دوران اسیری ان کی زبان کٹ گئی تھی۔ رہائی کے بعد اس زبان میں ردعمل کی تلخی کے بجائے درگزر کا تحمل آ گیا۔ جس کی تاثیر نے سیاسی تناؤ میں کمی لائی۔

شیئر: