Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان نے ’سیاسی ڈیڈلاک ختم کرنے‘ کے لیے فوج کی مدد نہیں مانگی تھی: شیریں مزاری

شیریں مزاری کے مطابق فوج نے اس وقت کے وزیر دفاع پرویز خٹک کے ذریعے ملاقات کا کہا تھا۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان میں انسانی حقوق کی سابق وزیر اور تحریک اںصاف کی رہنما شیریں مزاری نے کہا ہے کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم فوج کو ’سیاسی ڈیڈلاک کے خاتمے‘ کے لیے مدد کا نہیں کہا تھا۔
جمعے کو ٹوئٹر پر ایک بیان میں سابق وزیر نے کہا کہ ’مجھے یہ واضح کرنے دیں۔ اور میں یہ آن دی ریکارڈ کہتی ہوں کہ وزیراعظم نے سیاسی ڈیڈلاک کے خاتمے کے لیے فوج کو مدد کے لیے نہیں کہا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’فوج نے اس وقت کے وزیر دفاع پرویز خٹک کے ذریعے ملاقات کا کہا اور پھر تین تجاویز بڑھائیں کہ وزیراعظم مستعفی ہوں یا عدم اعتماد کا سامنا کریں یا نئے انتخابات کرائے جائیں۔‘
شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کیوں مستعفی ہونے کا آپشن دیتے جبکہ وہ پہلے ہی واضح طور پر بار بار کہہ چکے تھے کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ عمران خان عدم اعتماد کی تحریک کو بھی غیرملکی سازش قرار دے کر پہلے ہی مسترد کر چکے تھے۔ ایسی صورت میں وہ کیوں یہ آپشنز دیتے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سابق وزیراعظم کے سامنے تین آپشن فوج کی قیادت نے نہیں رکھے تھے۔
اس سوال پر کہ کیا اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے سامنے کوئی مطالبات رکھے تھے اور اگر رکھے تھے تو وہ کیا تھے؟ میجر جنرل بابر افتخار نے جواب میں کہا کہ ’وہ آپشنز اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نہیں رکھی گئی تھیں۔ پرائم منسٹر آفس کی جانب سے چیف آف آرمی سٹاف سے رابطہ کیا گیا تھا، یہ ڈیڈلاک جب برقرار تھا کہ اس میں کوئی بیچ بچاؤ کی بات کریں۔
فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ ’یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت اُس وقت آپس میں بات کرنے پر تیار نہیں تھی۔ تو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پرائم منسٹر ہاؤس گئے اور وہاں پر ان کے (وزیراعظم) کے دوسرے رفقا بھی تھے، تو وہی بیٹھ کر یہ تین آپشنز ڈسکس ہوئے کہ کیا کیا ہو سکتا ہے۔

فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ عسکری قیادت نے وزیراعظم ہاؤس کے کہنے پر اپوزیشن قیادت سے بات کی۔ فائل فوٹو: اے پی پی

تین آپشنز کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’ان تین آپشنز میں سے ایک تھا کہ تحریک عدم اعتماد جاری رہے۔ دوسرا وزیراعظم استعفیٰ دے دیں اور تیسرا یہ کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے لے اور وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کی طرف چلے جائیں۔ جو تیسری آپشن تھی اس پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ قابل قبول ہے۔ آپ ہمارے ایما پر اُن (اپوزیشن) سے بات کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تو آرمی چیف جو اس وقت اپوزیشن تھی، پی ڈی ایم ان کے پاس لے کر گئے، ان کے سامنے یہ گزارش رکھی اور اس پر سیر حاصل بحث کے بعد انہوں (اپوزیشن) نے کہا کہ ہم اس طرح کا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے اور اپنے منصوبے کے مطابق چلیں گے۔ بس یہ تھا کوئی آپشن اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نہ رکھا گیا اور نہ ہم نے دیا۔‘

شیئر: