Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیلی شدت پسندوں کی مسجد الاقصیٰ پر حملے کی دھمکی

او آئی سی نے کہا ہے کہ ’جارحیت میں اضافہ بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔‘ (فوٹو:اے پی)
اسرائیلی فورسز کے ساتھ دو روز قبل ہونے والی پُرتشدد جھڑپوں کے بعد فلسطینی نمازی سنیچر کو الاقصیٰ مسجد کے احاطے میں واپس آ گئے۔
عرب نیوز کے مطابق فلسطین میں کشیدگی اور بے چینی برقرار ہے کیونکہ انتہا پسند یہودی گروہوں نے اتوار کو مسجد پر حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔
مشرقی یروشلم کے ایک سیاسی تجزیہ کار نبیل فیدی نے بتایا ہے کہ یروشلم کے لوگ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان مسجد اقصیٰ کی عارضی تقسیم سے خوفزدہ ہیں جیسا کہ ہیبرون کی ابراہیمی مسجد میں ہوا تھا۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ الاقصیٰ پر ایسی پالیسی کامیاب ہونا ناممکن ہوگا۔
نبیل فیدی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’اسرائیل مشرقی یروشلم میں رہنے والے 350،000 فلسطینیوں کو مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور اسرائیل کے اندر رہنے والے فلسطینیوں سے الگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن حالیہ واقعات نے ثابت کیا ہے کہ فلسطینی متحد ہیں۔ یہ مسجد اقصٰی کا معاملہ ہے۔‘
انہوں نے جمعے کے حملے کو فلسطینیوں کا ردعمل پرکھنے کی ایک آزمائش قرار دیا۔ نبیل فیدی کے بقول ’الاقصیٰ میں جو کچھ ہوا اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ فلسطین اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر مسجد کو چھڑانے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اسلام کے تیسرے مقدس ترین مقام کے اندر یہودی رسومات کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

انتہا پسند یہودی گروپوں نے اتوار کو مسجد پر حملہ کرنے کی دھمکی دی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

اسلامی تعاون تنظیم نے بیت المقدس میں اسرائیلیوں کی پیش قدمی اور القبلی مسجد اور الاقصیٰ پلازے کے اندر نمازیوں پر حملے کی مذمت کی جس میں 150 سے زائد نمازی زخمی ہوئے جبکہ سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا۔
او آئی سی نے کہا ہے کہ ’جارحیت میں یہ خطرناک اضافہ پوری امت مسلمہ کے جذبات کی توہین اور بین الاقوامی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘
تنظیم نے اسرائیلی قبضے کو فلسطینی عوام اور ان کے علاقوں کے خلاف ایسے روزمرہ کے جرائم اور جارحیت کا مکمل ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
او آئی سی نے عالمی برداری خصوصاً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان مسلسل خلاف ورزیوں پر کارروائی کرے۔
فلسطینی گروہوں کے درمیان سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن اپنی سرزمین کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرانے کے لیے مسجد اقصیٰ ہی انہیں متحد رکھتی ہے۔
مشرقی یروشلم کے ایک رہائشی ابراہیم الانباوی نے بتایا ہے کہ ’جمعے کے روز جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے یروشلم کے رہائشیوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے جس سے اردن اور فلسطینی اتھارٹی کو شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔‘
اردن اور فلسطینی اتھارٹی پر اسلامی مقدس مقامات کی حفاظت میں ناکامی کا الزام لگایا گیا تھا اور ان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اسرائیلی دھمکیوں پر سخت موقف اختیار کریں۔

شیئر: