ڈاکٹروں نے ابتدائی معائنے کے بعد ان کی طبیعت خطرے سے باہر بتائی ہے جبکہ ان کے لیے کچھ طبی ٹیسٹ بھی تجویز کیے ہیں۔
خیال رہے کہ عمر سرفراز چیمہ کو حال ہی میں سابق وزیراعظم عمران خان نے اُس وقت گورنر پنجاب کے عہدے پر فائز کیا تھا جب سابق گورنر چوہدری سرور نے بعض معاملات پر حکومت سے اختلاف کیا تھا۔
گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد نو منتخب وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔
جمعے کو لاہور ہائی کورٹ میں انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی وساطت سے یہ بیان جمع کروایا کہ وہ حمزہ شہباز کا حلف لینے سے قاصر ہیں۔
عدالت نے صدر مملکت کو حلف کے لیے نیا نمائندہ مقرر کرنے کے لیے کہا تھا۔
اس عدالتی حکم کے بعد عمر سرفراز چیمہ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس حکم پر بغیر نام لیے تنقید کی اور کہا کہ وہ اپنا آئینی فرض پورا کر رہے ہیں۔
آج گورنر پنجاب کوئی درباری اوتھ کمشنر نہیں
اپنے حلف کی پاسداری اور ذمہ داری سے بخوبی واقف ہوں
آئین کی کوئی شک یا قانون کسی کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ ممجھے زبردستی غیر آئینی کام کرنے کے لئے دباؤ ڈالے
تاہم اطلاعات ہیں کہ صدر عارف علوی نے حمزہ شہباز کے حلف کے لیے چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو نامزد کیا ہے جو ان کا حلف لیں گے۔
صادق سنجرانی کی ایوان صدر میں صدر عارف علوی سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر سینٹرل لاہور عدنان رشید نے بھی بتایا ہے کہ ’انہیں کہا گیا ہے کہ آج 4 بجے متوقع طور پر حلف برادری کی تقریب ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے سکیورٹی اور ٹریفک کے انتظامات کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔‘
خیال رہے کہ گورنر ہاؤس میں حلف برادری کے انتظامات اسی روز سے کر لیے گئے تھے جب صوبائی اسمبلی نے نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا تھا۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو کام سے روک دیا گیا
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ قانون اور پارلیمانی امور نے صوبے کے ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس کو ایک خط کے ذریعے کام سے روک دیا ہے۔
محکمہ قانون کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں حمزہ شہباز کے حلف سے متعلق ایک کیس چل رہا ہے جس میں گورنر پنجاب اور ان کے پرنسپل سیکرٹری کو فریق بنایا گیا ہے۔
محکمہ قانون نے کہا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب آئین کے تحت صوبائی حکومت کے وکیل ہیں اور اس وقت صوبے میں نہ ہی وزیر اعلیٰ ہیں اور نہ ہی کابینہ، عملی طور پر حکومت نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایسے مقدمات میں حکومت کی نمائندگی سے پرہیز کریں۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ایڈووکیٹ جنرل ایسا کریں گے تو وہ سرکاری مشینری کے صوبہ چلانے کے عمل میں رکاوٹ بننے کا سبب بنیں گے، لہٰذا اس کیس اور اس نوعیت کے دوسرے کیسز میں ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش نہ ہوں۔
خط میں آئین کے آرٹیکل 140 جو کہ ایڈووکیٹ جنرل کی ذمہ داریوں سے متعلق ہے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ آئین کے مطابق ایڈووکیٹ جنرل صرف ان قانونی معاملات پر رائے دینے کے اہل ہیں جو صوبے کی حکومت ان کو تفویض کرے۔
’اس وقت صوبے میں حکومت نہیں ہے اس لیے ایڈووکیٹ جنرل حکومتی معاملات پر رائے بھی نہیں دے سکتے۔‘
دوسری طرف صدر مملکت کے دفتر نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے میڈیا کو آگاہ کیا ہے کہ حمزہ شہباز کے حلف سے متعلق وزیراعظم ہاؤس سے آںے والی سمری موصول ہو چکی ہے۔ البتہ اس پر ابھی غور و خوض کیا جا رہا ہے۔