Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’شہباز سپیڈ‘ کی راہ میں حائل سپیڈ بریکر: عمار مسعود کا کالم

شہباز شریف امور حکومت چلانے کے ماہر ہیں مگر ان کی کارکردگی کی راہ میں ایک ایسی اپوزیشن کا سپیڈ بریکر حائل ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
اگرچہ شہباز شریف کو حکومت سنبھالے قریباً چار ہفتے ہوچکے ہیں مگر پی ٹی آئی کے جہادیوں کو اب تک اس کا یقین نہیں آ رہا۔ وہ اب بھی منتطر ہیں کہ کپتان ہر روز کم از کم تین دفعہ قوم سے خطاب کرے، قوم کو امریکہ کی غلامی سے نکلنے کے گر بتائے اور امریکہ کے اپنے دورے سے واپسی پر ورلڈ کپ جیسی فتح کے اعلان کے رمز بتائے۔ 
اب ایک نیا وزیراعظم آ چکا ہے جس کی توجہ دوسرے سیاستدانوں کی توہین سے زیادہ اپنے کام پر مرکوز ہے۔ اس طرح کے وزیر اعظم کے لیے نہ میڈیا تیار تھا نہ سوشل میڈیا کی اس حوالے سے کوئی تربیت کی گئی تھی۔ یہ بزم تو کسی اور مقصد کے لیے سجائی گئی تھی اب محفل کا مہمان خصوصی گرچہ بدل گیا ہے لیکن لوگوں کی چار سالہ انتقامی اور الزامی عادتیں بدلنے میں وقت لگے گا۔
شہباز شریف کو جو حالات نصیب ہوئے ہیں وہ کسی طرح بھی موافق نہیں۔ ان کے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اور انکی کابینہ ہر محاذ پر بارودی سرنگیں بچھا کر گئے۔ اب وہ منتظر ہے کہ کہیں سے انکی ’بچھائی بارودی سرنگ‘ پھٹے اور وہ اس تماشے پر تالیاں پیٹیں۔ 
ہر محاذ جنگ کا محاذ بن چکا ہے۔ ہر عمل معرکہ حق باطل بن چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ معیشت کی حالت دگر گوں کرنے والوں کو کوئی نہیں پوچھ رہا اور معیشت کی بحالی کرنے والوں سے قدم قدم پر سوال ہو رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کو تہس نہس کرنے والوں سے کوئی تفتیش  نہیں کر رہا اور خارجہ پالسی پر لگے زخموں پر مرہم رکھنے والوں سے ہر روز سوال ہو رہے ہیں۔
داخلی معاملات میں برسوں کی نااہلی پر کوئی سوال نہیں کر رہا لیکن اس تباہی کو درست کرنے والوں کو روز کٹھہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔
لوگ شہباز شریف کی چار ہفتے کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے سے پہلے ایک لمحے کو یہ نہیں سوچ رہے کہ گذشتہ حکومت کے حوالے سے کم از کم چھ ماہ کی مثبت رپورٹنگ کا حکم صادر کیا گیا تھا۔
 مسئلہ یہ ہے وہ اب بھی اسی کام میں جتے ہوئے ہیں انکو یقین ہی نہیں آ رہا کہ ملک میں آئینی اور جمہوری طریقے سے ایک نیا وزیر اعظم آ چکا۔ ایک نئی کابینہ حلف اٹھا چکی۔ 

کتنے لوگوں نے سوچ تھا کہ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان وزیر اعظم سے حلف اٹھانے سے ہی انکار کر دیں گے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

شہباز شریف کو عمران خان کے عطا کیے بہت سے چلینجز کا سامنا ہے۔ انکی ذمہ داریاں بہت ہیں مگر انکے اختیارات کا ابھی تک تعین نہیں ہو سکا۔ شہباز شریف پنجاب میں فائر فائٹنگ کے ماہر گردانے جاتے ہیں مگر اب پنجاب نہیں وفاق ان کے سپرد ہے یہاں کے چیلینجز کی نوعیت اور قسم کی ہے۔
پہلا کام معیشت کی بحالی کا ہے۔ جب حکومت سنبھالی تو زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً ساڑھے دس ارب تھے جس میں دس ارب رہن رکھوائے ہوئے ہیں۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی تھی۔ لوڈ شیڈنگ کا بحران سر پر کھڑا تھا۔ عوام فوری ریلیف کے منتظر تھے۔ پٹرول کی قیت بڑھانے کے لئے آئی ایم ایف ڈنڈا لے کر سر پر کھڑا تھا۔ سیاسی منظر نامہ آئین شکنی،  تشدد اور طاقت کے استعمال کا منظر پیش کر رہا تھا۔
خارجہ کی سطح پر تعلقات ابتر تھے۔ وزارتیں نااہل لوگوں کے چنگل میں پھنسی تھیں۔ افلاس اور بے روزگاری میں ہر روز اضافہ ہو رہا تھا۔ عوام کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ 
شہباز شریف نے چند ہفتوں میں کافی کام کر لیے۔ لوڈ شیڈنگ کا بہت حد تک خاتمہ ہو گیا۔ آئی ایم ایف سے معاہدے پر دوبارہ بات چیت ہوگئی۔ سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات ملنا شروع ہو گئیں۔ اسلام آباد میٹرو رواں دواں ہو چکی۔ وزارتیں اہل لوگوں میں تقسیم ہو چکی۔ آئی ایم ایف کے تفیوض کردہ گورنر کی چھٹی ہوچکی۔ چینی اور آٹے کی قیمت میں گراں قدر کمی ہو چکی۔ بھاشا ڈیم کا دورہ ہو چکا۔
پٹرول کی روز افزوں قیمت میں اضافے کو تاحال روکا جا چکا۔ پیکا کا ظالمانہ قانون زمیں بوس ہو چکا۔ 
چار ہفتے کی یہ کارکردگی بہت ہے۔ عمران خان نے ان میں سے کوئی کام چار سال میں نہیں کیا۔ لیکن دوسری جانب ایک گروہ اس کارکردگی پر پانی پھیرنے کو تیار بیٹھا ہے۔ 
کتنے لوگوں نے سوچا تھا کہ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان وزیر اعظم سے حلف اٹھانے سے ہی انکار کر دیں گے۔ کتنے لوگوں نے سوچا تھا کہ کابینہ کا حلف اٹھانا ایک مسئلہ بن جائے گا۔ کتنے لوگوں نے سوچا تھا کہ پنجاب میں ایک آئینی بحران پیدا ہو گا جس کا منبع وہ گورنر ہو گا جسکی مدت ملازمت اب بس چند دن رہ گئی ہے۔ کتنے لوگوں نےسوچ تھا کہ وہ گورنر اہم اداروں کو ایک غیر آئینی خط لکھ دے گا۔

شہباز شریف کو عمران خان کے عطا کیے بہت سے چلینجز کا سامنا ہے۔ (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

کتنے لوگوں نے سوچا تھا کہ شیریں مزاری پاکستان کے خلاف ہی ایک خط اقوام متحدہ کو لکھ دیں گی۔ کتنے لوگوں نے سوچا تھا بحالی کی طرف گامزن حکومت کی راہ میں  روز دھرنے، جلسے ، جلوسوں اور لانگ مارچ کی دھمکیاں سپیڈ بریکر کا کام کریں گی۔ کتنے لوگوں نے سوچا تھا کہ امریکی سازش کا بیانہ بنانے والے اپنے ہی ملک کی ترقی اور بہتری کے خلاف کام کر رہے ہوں گے۔ 
شہباز سپیڈ کی توقع کرنا ان ناموافق حالات میں ناانصافی ہے۔ جس طرح ان کی سپیڈ کے راستے میں سپیڈ بریکر کھڑے کیے جا رہے ہیں یہ اس ملک کا بہت بڑا المیہ ہے۔ 
شہباز شریف امور حکومت چلانے کے ماہر ہیں مگر ان کی کارکردگی کی راہ میں ایک ایسی اپوزیشن کا سپیڈ بریکر حائل ہے جو عدلیہ کا حکم تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ ایک ایسی اپوزیشن جو ملک کی بدنامی میں مسرت محسوس کرتی ہے ایک ایسی اپوزیشن جو اداروں کے نیوٹرل ہونے پر بدگمان ہے۔
ایک ایسی اپوزیشن جو اپنی ملک میں مداخلت کے لیے بیرون ملک خط لکھنے کو باعث افتخار سمجھتی ہے۔ ایک ایسی اپوزیشن جو نفاق، نفرت اور تقسیم کی سیاست پر مصمم یقین رکھتی ہے۔
شہباز شریف کی کارکردگی کو پرکھنے سے پہلے ان حالات کو دیکھنا ضروری ہے جو عمران اینڈ پارٹی نے اس وقت ملک میں پیدا کیے ہوئے ہیں۔ یہ ایسے سپیڈ بریکر ہیں جو نہ صرف ترقی کے اس تیز رفتار سفر کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہو رہے ہیں۔

شیئر: