Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیرہ بگٹی میں ہیضے سے اموات میں اضافہ، ’لوگ خوف زدہ ہیں‘

علاقے کی 40 ہزار سے زائد آبادی پینے کے صاف پانی کے لیے بارشوں پر انحصار کرتی ہے (فوٹو: اردو نیوز)
40 ہزار کی آبادی میں ایسا گھر نہیں جس کا کوئی نہ کوئی فرد اس خطرناک بیماری سے متاثر نہ ہو، ہسپتال بھر گئے ہیں اور مریضوں کے لیے زمین پر لیٹنے کی جگہ بھی نہیں مل رہی، روزانہ اموات ہورہی ہیں جس کی وجہ سے لوگ خوف زدہ ہیں۔‘
یہ الفاظ وڈیرہ نور حسن بگٹی کے ہیں جو بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیر کوہ میں ہیضہ کی وبا پھوٹنے کے بعد پیدا ہونے والی تشویشناک صورت حال بتارہے ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق جمعے کو مزید 451 مریضوں کو ہسپتال لایا گیا جو 17 اپریل کو وبا پھوٹنے کے بعد صرف ایک دن میں مریضوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
ضلعی صحت افسر ڈیرہ بگٹی ڈاکٹر محمد اعظم بگٹی نے بتایا کہ مزید دو مریضوں کی اموات کے بعد ہیضہ سے مرنے والوں کی تعداد پانچ جبکہ متاثرین کی تعداد 2100 سے بڑھ گئی ہے تاہم علاقے کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ مرنے والوں اور متاثرین کی تعداد سرکاری اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے۔
ڈیرہ بگٹی سے تقریباً 25 کلومیٹر دور سب تحصیل پیرکوہ پاکستان میں گیس کے بڑے ذخائر رکھنے والے علاقوں میں سے ایک ہے لیکن یہاں کی 40 ہزار سے زائد آبادی پینے کے صاف پانی کے لیے بارشوں پر انحصار کرتی ہے۔
 تاہم گذشتہ آٹھ ماہ سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کے لیے پینے کے صاف پانی کا حصول امتحان بن گیا ہے۔ محکمہ صحت نے پیرکوہ میں کام کرنے والی گیس کمپنی کی جانب سے علاقے کے لوگوں کو فراہم کیے جانے والے پانی کو آلودہ، زہریلا اور پینے کے لیے ناقابل استعمال قرار دیا ہے اور اسے ہیضہ پھیلنے کی بنیادی وجہ بتائی ہے۔
وڈیرہ نور حسن بگٹی پیرکوہ کے سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ وہ گذشتہ کئی ہفتوں سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کے ذریعے علاقے میں پیدا ہونے والی نا گہانی صورت حال کی جانب حکومت کی توجہ دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔
 انہوں نے بتایا کہ پیرکوہ میں زیر زمین گیس کے ذخائر تو ہیں لیکن پانی ہے نہیں یا قابل استعمال نہیں اس لیے گیس کمپنی برساتی نالے سے پمپنگ مشینوں کے ذریعے اوپر پہاڑی علاقے تک پانی تالابوں تک پہنچاتی ہے اور پھر علاقے کے لوگوں کو فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے نالے میں پانی بہت کم اور آلودہ ہوگیا لیکن متبادل انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگ یہی پانی استعمال کرنے پر مجبور ہوئے جس کی وجہ سے بچے بوڑھے اور خواتین بیمار ہونے لگیں۔
’پورا رمضان لوگوں نے اس بیماری سے لڑتے گزارا مگر عید کے بعد صورت حال زیادہ تشویشناک ہونا شروع ہوگئی کیونکہ جو مریض ہسپتال سے ٹھیک ہوکر گھر پہنچتے وہ گندا پانی پی کر دوبارہ پہلے سے زیادہ بیمار ہوجاتے ہیں۔‘
وڈیرہ نور حسن کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں جگہ کم پڑگئی ہے، انتظامیہ کو ہسپتال کے اندر اور باہر خیمے لگانا پڑگئے ہیں مگر مریضوں کی تعداد میں کمی نہیں آرہی۔

مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ’جو مریض ہسپتال سے ٹھیک ہوکر گھر پہنچتے وہ گندا پانی پی کر مزید بیمار ہوجاتے ہیں‘ (فوٹو: اردو نیوز)

’جمعے کو بھی سینکڑوں مریض ہسپتال پہنچے ہیں اور دو بچوں کی اموات ہوئی ہیں۔ لوگ روزانہ لاشیں اٹھارہے ہیں۔ ہیضہ سے ہلاکتیں 19 تک پہنچ گئی ہیں مگر حکومت اس تعداد کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔‘
ضلعی صحت افسر ڈیرہ بگٹی ڈاکٹر اعظم بگٹی نے پانچ ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گذشتہ تین دنوں میں مزید تین مریضوں کی اموات ہوئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کو مزید 451 مریضوں کو ہسپتال پہنچایا گیا جو وبا پھوٹنے کے بعد سے ایک دن میں مریضوں کی سب سے بڑی تعداد ہے اور اس کے ساتھ ہی متاثرین کی مجموعی تعداد 2 ہزار 133 تک پہنچ گئی ہے۔
علاقے کے لوگ ہلاکتوں اور مریضوں کی تعداد زیادہ بتارہے ہیں۔ وڈیرہ نور حسن بگٹی کے مطابق متاثرین کی تعداد 3 ہزار سے زائد ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت صرف ہسپتالوں میں ہونے والی اموات کو شمار کررہی ہے کئی لوگ گھروں میں یا پھر ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ہلا ک ہوچکے ہیں۔
پیرکوہ کے دورے پر موجود سیکریٹری صحت بلوچستان صالح ناصر کا کہنا تھا کہ اموات کی زیادہ تعداد کے دعوے کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کرنا پڑے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت اور محکمہ صحت نے بیماری پر قابو پانے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے ہیں، علاقے میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ ہے۔

مقامی رہائشی وڈیرہ نور حسن بگٹی کے مطابق ہیضے کے متاثرین کی تعداد 3 ہزار سے زائد ہے (فوٹو: اردو نیوز)

’ہم نے ایمرجنسی فنڈز بڑھادیے ہیں، مزید ایک ایمبولنس اور 50 لاکھ روپے کی ادویات ایک دن میں پہنچ جائیں گی۔ علاقے کو آفت زدہ قرار دینے اور مرنے والوں کے لواحقین کو امداد دینے کے لیے حکومت سے بات کی جائے گی۔‘
حکومت بلوچستان کی ترجمان فرح عظیم شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ پیرکوہ میں صورت حال پر قابو پالیا گیا ہے تاہم علاقے کے لوگوں نے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
وڈیرہ نور حسن بگٹی کا کہنا ہے کہ ہیضے کی وبا پر قابو پایا جاتا تو ایک دن میں تین چار سو مریض داخل نہیں ہوتے، آج کے بعد کوئی موت ہوئی تو ہم میت لے کر ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر دھرنا دیں گے۔
سیکریٹری صحت صالح ناصر کے مطابق بیماری پر قابو پانے میں تین ہفتے لگ سکتے ہیں۔
علاقے کو آفت زدہ قرار دینے اور مرنے والوں کے لواحقین کو امداد دینے کے لیے حکومت سے بات کی جائے گی۔
وڈیرہ نور حسن بگٹی کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ پینے کے پانی کا ہے جب تک صاف پانی کا انتظام نہیں کیا جائےگا ہمارے پیارے روزانہ اسی طرح مرتے رہیں گے۔

علاقے میں متاثرین کی مجموعی تعداد 2 ہزار 133 تک پہنچ گئی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

’پیرکوہ کے گیس کی وجہ سے برسوں تک ملک کے بیشتر گھروں کے چولہے جلے ہیں، حکومت ہمارے بچو ں پر رحم کرے۔‘
سیکریٹری پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ بلوچستان صالح بلوچ کے مطابق پیرکوہ میں موجود پانی کے گندے تالابوں سے لوگوں کو پانی کی فراہمی بند کردی گئی ہے اور تالاب کی صفائی کا کام کرلیا گیا ہے۔
’ڈیرہ بگٹی سے روزانہ درجنوں واٹر ٹینکرز کے ذریعے پانی فراہم کیا جارہا ہے اس سلسلے میں فوری طور پر ایک کروڑ روپے جاری کردیے گئے ہیں۔اگر واٹر ٹینکرز کم پڑ گئے تو سوئی اور کشمور سے منگوا کر ضرورت کو پورا کریں گے۔‘
پیرکوہ کے رہائشی حضور بخش بگٹی کا کہنا ہے کہ 40 ہزار کی آبادی کے لیے صرف 10 سے 20 واٹر ٹینکرز بھیجے جارہے ہیں جو ناکافی ہیں، ہمیں اپنا کام کاج چھوڑ کر صرف دو بالٹی پانی کے لیے گھنٹوں تک لائنوں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔‘
پیرکوہ کے سینکڑوں رہائشیوں نے جمعہ کو ایک بڑے میدان میں جمع ہوکر دعائیہ تقریب منعقد کی جس میں مشکل صورت حال سے نکلنے کے لیے جانوروں کی قربانی دی گئی۔

پیرکوہ کے سینکڑوں رہائشیوں نے جمعہ کو ایک بڑے میدان میں جمع ہوکر دعائیہ تقریب منعقد کی (فوٹو: اردو نیوز)

علاقے کے رہائشی جان بگٹی نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس تقریب میں ہزاروں افراد جمع تھے جنہوں نے رب کے حضور دعائیں مانگیں اور اپنی مدد آپ کے تحت پانی کا ٹیوب ویل لگانے کے لیے چندہ بھی جمع کیا گیا۔
خیال رہے کہ پیرکوہ کو ڈیرہ بگٹی میں چار ٹیوب ویلز لگا کر پائپ لائن کے ذریعے پانی کی فراہمی کا منصوبہ 2017 میں شروع کیا گیا تھا تاہم 30 کروڑ روپے کا یہ منصوبہ پانچ سال گزرنے کے باوجود مکمل نہیں کیا جاسکا۔
سیکریٹری پی ایچ ای صالح بلوچ کا کہنا ہے کہ تاخیر کی وجہ ٹھیکیدار کی جانب سے قیمتیں بڑھانے کا مطالبہ تھا، اب حکومت نے قیمتیں بڑھا کر دوبارہ ٹینڈر جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم جنگی بنیادوں پر چار ماہ کے اندر منصوبے کو مکمل کریں گے۔

شیئر: