Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنگی سے زیادہ ٹھنڈی کابینہ، ماریہ میمن کا کالم

حکومت کے پاس نہ اپوزیشن یعنی عمران خان کی طرف سے ہونے والی تنقید کا کوئی جواب ہے اور نہ گورننس کے مسائل کا۔ (فوٹو: اے پی پی)
حکومت کنفیوژڈ بھی ہے اور مضمحل بھی۔ وفاق میں فیصلہ سازی کا بحران واضح ہے۔ ہفتہ بھر لندن آنے جانے میں صرف ہوا مگر فیصلہ ہنوز ندارد۔ فیصلوں کے لیے پہلے لندن اور اسلام آباد میں مشاورت ہوئی پھر اتحادیوں سے مشاورت ہوگی اور آخر قومی سلامتی کمیٹی کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔
 اس دوران روپیہ زوال کی طرف گامزن ہے اور قیمتیں عروج پر۔ سٹاک مارکیٹ حیران ہے اور عام شہری پریشان۔ ایک طرف گرمی کی شدت ہے اور دوسری طرف افواہوں کے جھکڑ۔ پنجاب میں ابھی کابینہ کی تشکیل بھی نہیں ہوئی۔ فلور کراسنگ کا فیصلہ بھی متوقع ہے اور اس وقت تک حکومتی اکثریت ڈانواں ڈول ہے۔ سمجھدار عوام متفکر ہیں کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔ 
عوام کے مسائل سے پیشتر حکومت کے اپنے مسائل حل ہونے ہیں۔ اس حکومت میں ابھی تک پتہ نہیں چل سکا کہ حتمی رائے کیا ہے اور کس کے پاس ہے۔ مریم نواز جن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں، انتظامی اور حکومتی معاملات کی سب سے نمایاں ترجمان ہیں۔ لندن سے اسحاق ڈار معیشت پر پالیسی دے رہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کابینہ میں نہیں بھی ہیں اور ہیں بھی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف الیکشن کی تاریخیں دے رہے ہیں اور اس سب کے دوران وزیراعظم خاموش ہیں اور اپنے بچھڑے بھائی سے گلے مل رہے ہیں اور غالبا اپنے اتحادیوں کو اکٹھا رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے اب تک یہ واضح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ان کی حکومت آخر ہے کب تک۔
 ظاہر ہے کہ ان کہ پیش نظر یہ امر ضرور ہے کہ وہ چند مہینوں کی تاریخ دے کر بڑھا نہیں سکیں گے مگر مدت مکمل کرنے کا اعلان کر کے وہ پہلے انتخابات ضرور کرا سکتے ہیں مگر اس اعلان کے ساتھ عمران خان کی تحریک باقاعدہ اسلام آباد کا رخ کر لے گی اور اس کے بعد وقت کا پہیہ مڑ کر 2012 میں پہنچ جائے گا۔ 
حکومت کے پاس اپوزیشن یعنی عمران خان کی طرف سے ہونے والی تنقید کا کوئی جواب ہے اور نہ گورننس کے مسائل کا۔ چار سطح پر ہونے والی فیصلہ سازی سے لگتا ہے کہ گویا ان کے پاس کئی برسوں کا وقت ہے جبکہ وقت شاید مہینوں کا بھی نہیں۔

 حکومت کی طرف سے ملی جلی میسینجگ کے بعد سرکاری فیصلہ سازی تقریباً جامد ہو چکی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

 ن لیگ کی آدھی قیادت حکومت سے باہر ہے اور سب سے زیادہ کنفیوژن ان ہی کی طرف سے ہے۔ شہباز شریف کو پہلے ان کو مطمئن کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد آتے ہیں اتحادی خصوصا آصف زرداری جن کی ہنگامی اور اچانک پریس کانفرنس کا بظاہر مقصد شہباز شریف کے دورۂ لندن کے دوران پیغام دینا تھا کہ کہیں کوئی فوری اعلان نہ کر بیٹھیں۔
اس کے بعد اپنی کابینہ جنہوں نے نتائج دینے ہیں اور آخر میں اسٹیبلشمنٹ جن کی طرف حکومت کے درون خانہ گلے شکوے بڑھتے جا رہے ہیں۔ تیل کی قیمت اور سبسڈی کا ایک بنیادی فیصلہ جو کہ وزیر اعظم وزیر خزانہ کے ساتھ مشاورت میں روٹین میں کر لیتے ہیں وہ بھی لندن میں کئی دن کی بیٹھک کے بعد ہو سکا۔ پنجاب میں کابینہ کا فیصلہ بھی اسی طرح لٹکا ہوا ہے۔ اس چار سطحی فیصلہ سازی کا مطلب ہے کہ بنیادی اور روٹین کے فیصلے بھی نہیں ہو پا رہے اور سب سے اہم فیصلہ یہ کہ حکومت حتمی طور پر کب تک اقتدار میں رہنا چاہتی ہے۔ 
وزیراعظم نے وار کیبنٹ یا جنگی کابینہ کی تشکیل کا اعلان کیا تھا۔ کابینہ کے اجلاس اور ان میں فیصلہ سازی کو دیکھا جائے تو یہ جنگی سے زیادہ ٹھنڈی کابینہ لگ رہی ہے۔ معیشت پر گفتگو ہے مگر کوئی واضح لائحہ عمل نظر نہیں آتا۔ معیشت کو چھوڑ کر عوامی فلاح و بہبود کے کوئی منصوبے نظر نہیں آ رہے۔ اس غیر یقینی صورتحال میں افسر شاہی الگ کنفیوژن میں ہے۔
 حکومت کی طرف سے ملی جلی میسیجنگ کے بعد سرکاری فیصلہ سازی تقریباً جامد ہو چکی ہے۔ درجنوں اہم تقرریاں ابھی تک تعطل کا  شکار ہیں۔ جہاں پر تعیناتیاں ہوئی بھی ہیں وہاں ابھی ہدایات اور سمت کا انتظار ہے۔ اس میں کچھ رول وزیراعظم کے بطور وزیراعلیٰ تجربے کا بھی ہے مگر بنیادی وجہ حکومت کے اپنے اندر غیریقینی صورتحال ہے۔

حکومت کے پاس عمران خان کی تنقید کا کوئی جواب نہیں۔ (فوٹو: فیس بک عمران خان)

اس غیریقینی صورتحال سے نکلنے کے لیے حکومت کو فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ وہ کب تک، کس طرح اور کن کے ساتھ حکومت میں رہنا چاہتے ہیں۔ سیاسی فیصلوں کے ساتھ معاشی اور انتظامی فیصلے بھی ہفتوں نہیں دنوں میں ہونے چاہییں۔ اس کے بعد یہ فیصلے عوام پر واضح کر دینا چاہیے۔ اس سب کے بعد گیند اپوزیشن  یعنی پی ٹی آئی کے کورٹ میں آ جائے گی۔ وہ اس کے جواب میں ظاہر ہے اپنی حکمت عملی بنائیں گے اور ان کے اطوار سے لگتا ہے کہ وہ کسی بھی حد تک جانا چاہیں گے۔
ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے ان کو کافی حوصلہ بھی ملا ہے مگر جب ن لیگ اور اتحادیوں نے حکومت قبول کی ہے تو ان کو اسے کسی طرف لگانا بھی ہے۔ حکومت اپنے طور پر جب تک پر فیصلہ نہیں کرے گی اس وقت تک ملک میں افواہوں کے جھکڑ ہی چلتے رہیں گے۔

شیئر: