Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے گرم ترین شہر میں پانی کی قلت غربت میں اضافے کا سبب کیسے؟

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان اور انڈیا کے کئی علاقے اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔
درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہیٹ سٹروک کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستان کا صوبہ سندھ ’ہیٹ ویو‘ کے ہائی الرٹ پر ہے جس کے شہر جیکب آباد میں ہفتے کے آخر میں درجہ حرارت 51 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا۔
شہر میں نہریں جو قریبی کھیتوں کے لیے آبپاشی کا ایک اہم ذریعہ ہیں، خشک ہو چکی ہیں۔
جیکب آباد کے ڈپٹی کمشنر عبدالحفیظ سیال نے بتایا کہ ’یہ شہر موسمیاتی تبدیلی کی فرنٹ لائن پر ہے۔ اس لیے یہاں معیار زندگی متاثر ہو رہا ہے۔‘
جیکب آباد اور آس پاس کے دیہاتوں میں 10 لاکھ افراد میں سے زیادہ ترسخت غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
پانی کی قلت اور بجلی کے بحران نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
جیکب آباد کے ایک سکول کے 12 سالہ طالب علم سعید علی کو تشویشناک حالت میں ہسپتال لایا گیا جو سکول سے واپس گھر جاتے ہوئے گرمی کی وجہ سے چکرا کر گر پڑے تھے۔
بچے کی والدہ شہیلہ جمالی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ایک رکشہ ڈرائیور میرے بیٹے کو یہاں لے کر آیا۔ یہ چل بھی نہیں پا رہا تھا۔‘
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سعید کی حالت تشویشناک ہے تاہم غربت کے ہاتھوں مجبور بچے کی والدہ کہتی ہیں کہ وہ اگلے ہفتے سکول واپس جائے گا۔

شفیع محمد نے بتایا کہ ’ہمیں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ بجلی اور پانی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ وہ بڑے ہو کر مزدور بنے۔‘
مقامی این جی او کمیونٹی ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے زیر انتظام ایک نئے ہیٹ سٹروک کلینک میں سعید کا علاج کرنے والے نرس بشیر احمد نے کہا کہ ’تشویشناک حالت میں آنے والے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ پہلے گرمی جون اور جولائی میں اپنے عروج پر ہوتی تھی لیکن اب یہ مئی میں آ رہی ہے۔‘
دھوپ میں کام کرنے پر مجبور مزدور سب سے زیادہ کمزور ہیں۔ اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے رشید رند نے بتایا کہ ’شدید گرمی کی وجہ سے بعض اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم کام چھوڑ دیں، لیکن اگر میں کام نہیں کر سکتا تو کما نہیں سکتا۔‘
لوہار شفیع محمد نے کہا کہ ’یہ ایسا ہے جیسے چاروں طرف آگ جل رہی ہو۔ ہمیں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ بجلی اور پانی ہے۔‘
بجلی کی قلت کا مطلب یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں روزانہ صرف چھ گھنٹے اور شہر میں 12 گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی ہے۔
پاکستان بھر بنیادی ڈھانچے کے بڑے مسائل کی وجہ سے پینے کے پانی تک رسائی ناقابل بھروسہ اور استطاعت سے باہر ہے۔
شہر کے مضافات میں واقع ایک گاؤں میں خواتین صبح تین بجے اٹھتی ہیں تاکہ پینے کا پانی کنویں سے نکال سکیں لیکن یہ پورے دن کے لیے کافی نہیں ہوتا۔

گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسم کے خطرے دوچار آٹھواں ملک ہے (فوٹو: اے ایف پی)

بھینسوں کا دودھ اور گوشت بازار میں فروخت کرنے والے رہائشی عبدالستار نے بتایا کہ ’ہم اپنے مویشیوں کو پینے کا صاف پانی دیتے ہیں کیونکہ ہماری روزی روٹی کا انحصار انہی پر ہے۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا چاہے بچے جِلدی بیماری اور اسہال کا شکار ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک مشکل انتخاب ہے لیکن اگر مویشی مر جائیں تو بچے کیسے کھائیں گے؟‘
ماحولیاتی این جی او جرمن واچ کے مرتب کردہ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسم کے خطرے دوچار آٹھواں ملک ہے۔
حالیہ برسوں میں سیلاب، خشک سالی اور طوفانوں نے ہزاروں افراد کو ہلاک اور بے گھر کیا جبکہ ذریعہ معاش کو بھی متاثر کیا ہے اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا ہے۔
گرم شہروں میں شہری منصوبہ بندی کا مطالعہ کرنے والی پروفیسر نوشین ایچ انور کا کہنا ہے کہ حکام کو ہنگامی ردعمل سے ہٹ کر طویل مدتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

شیئر: