Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی سے معیشت کو کتنا فائدہ ہوگا؟

پی ٹی آئی کے معاشی امور کے ترجمان مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
روپے کی گرتی قدر اور مشکل معاشی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت نے جمعرات کو تمام گاڑیوں، لگژری آئٹمز اور موبائل فونز کی درآمد پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے تاکہ جاری کھاتوں کا خسارہ کم ہو سکے۔
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے مطابق اس فیصلے سے سالانہ چھ ارب ڈالر تک درآمدی بل میں کمی ہو گی۔
تاہم حکومت کے اس اقدام سے کیا واقعی ملک معاشی بحران کی کیفیت سے نکل سکے گا۔
اس حوالے سے اردو نیوز کے بات کرتے ہوئے معاشی امور کے ماہرین کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے مختصر مدت میں زیادہ فائدہ نہیں ہو گا تاہم لمبے عرصے میں اس کے فوائد ہو سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے معاشی امور کے ترجمان مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔
سوشل میڈیا پر اپنے ردعمل میں ان کا دعویٰ تھا کہ درآمدات کی پابندی سے ہزاروں کاروبار بند ہوں گے اور لاکھوں لوگ بیروزگار ہوں گے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے معاشی امور کی رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی خلیق کیانی کا کہنا تھا کہ اگلے ماہ پیش ہونے والے بجٹ تک تو لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا تاہم اگلے سال جا کر اس کے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے تجارتی خسارہ کم کرنے میں کچھ مدد ملے گی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے صرف یہ قدم کافی نہیں ہو گا بلکہ پٹرول پر دی جانے والی سبسڈی کو بھی کم یا ختم کرنا ہوگا تب ہی آئی ایم ایف سے معاہدہ بحال ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد سے چند دن قبل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں منجمد کر دی تھیں جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں تعطل آ گیا ہے۔
موجودہ حکومت قطر میں آئی ایم ایف حکام کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے جو آئندہ چند دن جاری رہنے کا امکان ہے۔

شہباز شریف نے کہا ہے کہ ان کے لگژری آئٹمز پر پابندی کے فیصلے سے ملک کے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

معاشی تجزیہ کار شہباز رانا کے مطابق امپورٹڈ اشیا کی درآمد پر پابندی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اس سے امپورٹ بل میں ماہانہ صرف 30 کروڑ ڈالر کی کمی ہو گی۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف امپورٹس پر پابندی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اس لیے ان کے خیال میں آئی ایم ایف سے معاہدے میں کامیابی کے حوالے سے اس اقدام کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے فیول سبسڈی کو کم کرنا ہو گا تاہم اسے تھوڑا تھوڑا کر کے کم کرنے پر بھی آئی ایم ایف کو راضی کیا جا سکتا ہے۔‘
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ان کے لگژری آئٹمز پر پابندی کے فیصلے سے ملک کے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی۔
ایک ٹویٹ میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ہم کفایت شعاری پر عمل کریں گے اور مالی طور پر مضبوط لوگوں کو اس کوشش میں آگے بڑھنا چاہیے تاکہ ہم میں سے کم مراعات یافتہ لوگوں کو یہ بوجھ نہ اٹھانا پڑے جو پی ٹی آئی حکومت نے ان پر ڈالا ہے۔‘

شیئر: