Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پیداوار کم، کرایہ زیادہ‘، پاکستان کے لیے آم کے ایکسپورٹ آرڈر پورے کرنا مشکل 

کورونا وبا سے متعلق پابندیوں میں نرمی اور کئی ممالک میں اس کے خاتمے کے بعد رواں برس پاکستان کو بڑی تعداد میں آم کے ایکسپورٹ آرڈر موصول ہوئے ہیں تاہم برآمدکنندگان کے مطابق کرایوں میں بے پناہ اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ آرڈر پورے کرنا مشکل ہے۔ 
پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے مطابق رواں سال ہیٹ ویو اور پانی کی کمی کی وجہ سے پاکستان کے آموں کی مجموعی مقدار میں 50 فیصد تک کمی ہو گی۔
برآمد کنندگان کے مطابق تیار شدہ آم بھی بیرون ملک بھجوانے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ فضائی کرایوں میں اضافے کی وجہ سے اس کی برآمد بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔
برآمد کنندگان کے مطابق ذائقے اور معیار کے حساب سے اپنی پہچان رکھنے والے پاکستانی آموں کی مانگ امریکہ، یورپ سمیت خلیجی ممالک میں بڑھ رہی ہے۔ اور دنیا بھر سے نئے آرڈرز کی موصولی کے بعد 25 مئی سے برآمد کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
تاہم رواں برس ٹرانسپورٹ کرائے بہت زیادہ بڑھنے کی وجہ سے تمام آرڈرز کی ترسیل میں مشکلات آ رہی ہیں۔ 
سندھ کے ایک بڑے آم ایکسپورٹر آغا ہمایوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمارے پاس آرڈرز بہت زیادہ آ رہے ہیں۔

رواں برس ٹرانسپورٹ کرائے بہت زیادہ بڑھنے کی وجہ سے تمام آرڈرز کی ترسیل میں مشکلات آ رہی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ اس بار ایک مسئلہ ائیر فریٹ (فضائی کرایوں) کا ہے۔ ڈالر میں کرایہ ادا کرنا پڑ رہا ہے اور اس وجہ سے مہنگا پڑ رہا ہے۔ 100 روپے کلو آم ہے اور کرایہ 400 روپے لگتا ہے۔ اس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں پاکستانی آم کی قیمت بڑھ رہی ہے۔
پاکستان ایگریکلچر ایند ہارٹیکلچر فورم کے صدر شیخ امیتاز حسین کے مطابق پاکستان میں آم کی پیداوار18  سے 20 لاکھ ٹن ہے۔ گزشتہ سیزن میں ملک سے سوا لاکھ ٹن آم ایکسپورٹ ہوا تھا۔
شیخ امتیاز حسین نے بتایا کہ ’پاکستان آم کی برآمدات سے 90 ملین ڈالرز کما رہا ہے۔ اس آمدن کا بڑاحصہ ائیرلائنز کرائے کی مد میں لے جاتی ہیں۔‘
200 ’روپے کلو میں پڑنے والا آم کرایہ ملانے کے بعد 900 روپے کلو ہوجاتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو آم کی برآمد کا وہ فائدہ نہیں ہو رہا ہے جو ہونا چاہیے۔‘ 

برآمدات کی بہتری کے لیے کارگو جہازوں کی خریداری

شیخ امتیاز حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان کے پاس بحری و فضائی کارگو سروس کی بہتر سہولیات موجود نہیں ہیں۔ اس وقت آم پی آئی اے کی مسافر پروازوں کے ذریعے برآمد کیا جاتا ہے۔ اس لیے بڑی مقدار میں نہیں بھیجا جا سکتا۔
شیخ امتیاز نےتجویز پیش کی کہ پاکستان کو برآمدات بڑھانے کے لیے اپنے کارگو جہاز لینے ضروری ہیں۔
پاکستان سے خلیجی ممالک کا سمندری راستہ قریب ہے اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اومان سمیت کئی خلیجی ممالک میں پاکستانی آم بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ اگر یہاں سے سمندری راستے سے بھی آم ایکسپورٹ کیے جائیں تو برآمد کو بڑھایا جاسکتا ہے۔

افغانستان اور ایران کی بارٹر ٹریڈ کی مندیوں میں بھی اب آم کی تجارت بڑھ رہی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

برآمد کے اخراجات کم کروانے کے لیے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو خصوصی اقدامات کرنا چاہئیں۔ کرائے میں رعایت ملے تو ملک کے لیے اچھا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔‘ 

آم کی بیرون ملک نمائشیں

شیخ امتیاز نے کہا کہ آم کی برآمد مزید بہتر بنانے کے لیے بیرون ملک نمائشوں کا انعقاد انتہائی ضروری ہے اور اس سلسلے میں حکومت کو برآمد کنندگان کی مدد کرنی چاہیے۔ اگر حکومت تعاون کرے تو رواں برس خلیجی ممالک سمیت یورپ اور امریکہ میں مینگو فیسٹیول منعقد کیے جائیں گے۔ اس سے برآمد کے مزید آرڈر ملیں گے۔  

پاکستانی آم کی برآمد کا سیزن

پاکستان سے 25 مئی کو سندھڑی آم کی ایکسپورٹ شروع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد چونسہ کی برآمد شروع ہوگی۔ یہ دو بڑی اقسام ہیں جن کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اقسام کے آم بھی برآمد کیے جاتے ہیں۔‘  
انہوں نے بتایا کہ برآمد کے لیے پورے ملک سے آم جمع کیے جاتے ہیں اور مئی سے نومبر تک آموں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ 
 پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے علاقے میرپور خاص سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ رحیم یار خان سے جنوبی پنجاب تک پہنچتا ہے اور ملتان پر جا کر اختتام پذیر ہوتا ہے جہاں سفید چونسہ آم کی آخری قسم ہوتی ہے جو اپکسپورٹ کی جاتی ہے۔

برآمد کے لیے پورے ملک سے آم جمع کیے جاتے ہیں اور مئی سے نومبر تک آموں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

پہلے اگست میں آموں کا سیزن ختم ہوجاتا تھا اب یہ نومبر تک سیزن چلتا ہے۔ 

اشیا کے بدلے اشیا کی منڈیوں میں آم کی تجارت  

شیخ امتیاز کے مطابق افغانستان اور ایران کی بارٹر ٹریڈ کی مندیوں میں بھی اب آم کی تجارت بڑھ رہی ہے۔ یعنی سامان کے بدلے آم خریدے جا رہے ہیں۔ پاک افغان بارڈر پر بھی ایک بڑی منڈی لگنا شروع ہوگئی ہے کیونکہ افغانستان سے خریداری روپے میں کرلی جاتی ہے، اس لیے اس منڈی میں بھی بہتری دیکھی جارہی ہے۔ چین بھی ایک بڑی منڈی بننے جارہی ہے۔ یہاں سے بھی ہم دیگر پھلوں کے بدلے آم فروخت کرسکتے ہیں۔

شیئر: