Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جبری گمشدگیاں سنجیدہ مسئلہ‘،وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی تشکیل

خصوصی کمیٹی کابینہ کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے جبری گمشدگیوں اور لاپتا افراد کے حوالے سے کابینہ کی خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو اپنی رپورٹ کابینہ کو پیش کرے گی۔  
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق  وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کمیٹی کے چیئرمین ہوں گے جبکہ ارکان میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت شازیہ مری، وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود، وزیر دفاعی پیداوار اسرار ترین، وزیر بحری امور فیصل سبزواری اور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آغا حسن بلوچ شامل ہیں۔  
نوٹیفکیشن کے مطابق کابینہ نے 24 مئی کو اپنے فیصلے میں لاپتا افراد اور جبری گمشدگیوں سے متعلق پالیسی معاملات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا تھا۔  
وزارت داخلہ کمیٹی کو سیکرٹریٹ سپورٹ فراہم کرے گی۔ کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ماہرین قوانین، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی نمائندگان کو بھی بلا کر ان سے تجاویز لے اور کمیٹی اپنی رپورٹ اور سفارشات کابینہ کے سامنے رکھے جس پر بحث کے بعد جبری گمشدگیوں کے حوالے سے پالیسی طے کی جائے گی اور فیصلے کیے جائیں گے۔  
گزشتہ ہفتے کابینہ کے اجلاس کے دوران وزارت داخلہ نے کابینہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق جبری گمشدگیوں کے حوالے سے بریفنگ دی تھی۔ 

پچھلے ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق وزارت داخلہ نے وفاقی کابینہ کو بریفنگ دی تھی (فائل فوٹو)

کابینہ کو بتایا گیا کہ جبری گمشدگیوں کے حوالے  سے تعزیرات پاکستان 1860 کے قوانین میں ترامیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے، جس میں جبری گمشدگی میں ملوث عناصر کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اس وقت ترمیمی بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں زیر غور ہے۔ 
کابینہ اراکین کا کہنا ہے ’جبری گمشدگیوں کا مسئلہ آئینی لحاظ سے سنگین نوعیت کا ہے جس کے لیے عملی اقدامات کرنے ضرورت ہے۔ تمام شراکت داروں سے مل کر اس کا مستقل حل تلاش کرنا چاہیے۔
اراکین کے مطابق ’وزیراعظم نے کہا کہ جبری گمشدگیاں ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے لاقانونیت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔‘ 
کابینہ نے وزیرقانون کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری دی جس میں تمام سیاسی پارٹیوں کے کابینہ اراکین شامل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ 
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ مدثر نارو اور بلوچ طلبا کی جبری گمشدگی سے میں کیسز میں مسلسل وفاقی حکومت کو جبری گمشدگیاں روکنے کے حوالے سے اقدامات کا کہتی رہی ہے۔ اس سلسلے مین عدالت نے سابق وفاقی وزیر براے انسانی حقوق شیریں مزاری، سیکریٹری داخلہ اور اٹارنی جنرل کو بھی متعدد مرتبہ طلب کیا۔  

جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کی گئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

عدالت نے کئی مواقع پر ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں، یہ وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا، معاملے پر وفاقی حکومت نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔  
عدالت نے سابق حکومت کے دور میں معاملے پر وفاقی کابینہ کو بریف کرنے اور اس حوالے سے اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا۔  
جبری گمشدگیوں اور لاپتا افراد کے معاملے پر موجودہ اور سابق حکومت کی دو اتحادی جماعتوں بی این پی مینگل اور ایم کیو ایم کو بھی شدید تحفظات ہیں۔
اختر مینگل نے 2018 میں کابینہ میں شامل ہوئے بغیر صرف لاپتہ افراد کے معاملہ حل کرانے کی شرط پر حکومت کی حمایت کی اور عمران خان کو وزارت عظمٰی کے لیے ووٹ دیے تھے تاہم لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہونے پر وہ حکومت سے الگ ہوگئے تھے اور نئی اتحادی حکومت میں شامل ہوئے۔  
اسی طرح ایم کیو ایم کی جانب سے مسلسل سابق حکومت جس کا وہ خود بھی حصہ تھی، لاپتہ کارکنان کا معاملہ اٹھایا جاتا رہا اور موجودہ حکومت کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کے لیے کیے گئے معاہدے میں بھی یہ معاملہ شامل ہے۔  
کابینہ کی جانب سے بنائی گئی خصوصی کمیٹی میں دونوں جماعتوں کے ارکان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔  
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ 2011 سے لے کر اب تک 8 ہزار 463 لاپتا افراد میں سے صرف 3 ہزار 284 افراد اپنے گھر واپس آئے ہیں۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کمیٹی کے چیئرمین ہوں گے (فائل فوٹو)

رپورٹ کے مطابق ’228 افراد مختلف مقابلوں میں مارے گئے ہیں اور متعلقہ پولیس نے مقابلوں کی ایف آئی آر ریاست کی بنا پر درج کرکے قانون نے اپنا راستہ اختیار کیا ہے۔‘ 
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 946 افراد کے ایکشن (ان ایڈ آف سول پاورز) ریگولیشنز 2011 کے تحت حراستی مراکز میں قید ہونے کی اطلاع موصول ہوئی تھی اور متعلقہ ’اداروں‘ کی جانب سے اہل خانہ کے ساتھ قیدیوں کی ملاقاتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ 
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’584 لوگوں سے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ انہیں مجرمانہ اور دہشت گردی کے الزامات میں زیر سماعت قیدیوں کے طور پر جیلوں میں بند رکھا گیا ہے۔‘ 
جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا ہے کہ مکمل تفتیش کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ ایک ہزار 178 کیسز جبری گمشدگیوں کے طور ثابت نہیں ہوئے کیونکہ ان کیسز میں لاپتا افراد یا تو خود گئے ہیں یا یہ کیسز اغوا برائے تاوان یا ذاتی دشمنی سے متعلق ہیں۔ 

شیئر: