Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹارگٹ کلنگ، 100 سے زائد ہندو خاندان انڈیا کا زیرِانتظام کشمیر چھوڑ گئے

انڈیا کی حکومت نے 2019 میں کشمیر کے اپنے زیرانتظام حصے کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں ایک ہندو سکول ٹیچر کے قتل کے بعد خوف و ہراس پھیلنے کی وجہ سے 100 سے زائد ہندو خاندان وہاں سے چلے گئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان خاندانوں کے کشمیر چھوڑنے کے بارے میں بدھ کو کولگام کی ہندو برادری کے ایک رہنما نے بتایا۔
واضح رہے کہ عسکریت پسندوں نے منگل کو 36 سالہ رجنی بالا کو کولگام میں ایک سرکاری سکول کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جو سری نگر شہر کے جنوب میں واقع ہے۔
یہ کشمیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کے سلسلے کا تازہ ترین واقعہ ہے۔
شمالی کشمیر کے ضلع بارہ مولہ میں واقع ہندو کشمیری پنڈت کالونی کے صدر اوتار کرشن بھٹ نے بتایا کہ اس علاقے میں رہنے والے 300 خاندانوں میں سے نصف منگل سے فرار ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کل کے قتل کے بعد وہ خوفزدہ تھے۔ ’ہم بھی کل تک وہاں سے چلے جائیں گے، ہم حکومتی جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ ہمیں کشمیر سے باہر منتقل کرے۔‘
رہائشیوں نے بتایا کہ پولیس نے سری نگر میں ایک ہندو علاقے کو سیل کر دیا ہے اور ان جگہوں کے اردگرد سکیورٹی بڑھا دی ہے جہاں کشمیری پنڈت سرکاری ملازمین رہتے ہیں۔
سری نگر کی مقامی انتظامیہ نے فرار ہونے والے خاندانوں پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا تاہم کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے گزشتہ ماہ کشمیری پنڈتوں کو یقین دلایا تھا کہ ان کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
سنہ 1989 میں مسلمان عسکریت پسندوں کی طرف سے بغاوت کے آغاز پر ہندوؤں کی ہلاکتوں اور ان کے گھروں پر حملوں میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے تقریباً دو لاکھ 50ہزار کشمیری پنڈت وادی کشمیر چھوڑ چکے ہیں۔
گزشتہ ماہ کشمیر کی مقامی حکومت کے لیے کام کرنے والے ایک کشمیری پنڈت کو اس کے دفتر کے اندر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد اقلیتی برادری کے دیگر ملازمین نے احتجاج کیا اور وادی کشمیر سے باہر محفوظ علاقوں میں منتقل کیے جانے کا مطالبہ کیا۔
کشمیر کی پولیس سربراہ وجے کمار نے بدھ کو روئٹرز کو بتایا کہ ’ہم نے ان تمام عسکریت پسندوں کو مار ڈالا ہے جو پہلے کی ہلاکتوں کے ذمہ دار تھے۔‘

شیئر: