Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب نواز شریف آرمی چیف کو ہٹاتے ہٹاتے جیل جا پہنچے

نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کی کابینہ کے ارکان کو حراست میں لے لیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
’پاکستان ٹیلی ویژن پر آرمی چیف کو ہٹائے جانے کی خبر سن کر میں فارغ ہوا ہی تھا کہ میرا ڈرائیور بھاگتا ہوا اندر آیا۔ باہر فوج کے کچھ لوگ آئے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے وزیر کو گرفتار کرنا ہے۔ اس نے مجھے بتایا۔ میں نے فوراً خواب گاہ کا دروازہ مقفل کر لیا۔ ایک میجر اور 10 سپاہی باہر موجود تھے۔ انہیں کچھ دیر انتظار کا کہہ کر میں نے گرین ٹیلی فون پر وزیراعظم ہاؤس رابطہ کیا۔ آگے سے اے  ڈی سی بول رہا تھا۔ میں نے پوچھا کچھ سپاہی مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں، مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ آگے سے جواب آیا وہ یہاں بھی آ چکے ہیں۔ ساتھ ہی فون منقطع ہو گیا۔‘
12 اکتوبر 1999 کی شام کا یہ احوال اس وقت کے وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے اپنی کتاب Between Dreams and Realities میں رقم کیا ہے۔
اس روز وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی کئی پرتیں اور پہلو ہیں، جن کی جڑیں گذشتہ چھ ماہ میں اوپر تلے پیش آنے والے واقعات، اقدامات اور معاملات میں پیوستہ ہیں، جنہوں نے پاکستان میں چوتھے مارشل لا کی راہ ہموار کی۔
آج سے ٹھیک 22 برس قبل راولپنڈی، کراچی، ملتان کی تحصیل شجاع آباد اور سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں کچھ کردار ایک تاریخی واقعے کا حصہ بننے جا رہے تھے۔ جغرافیائی طور پر الگ الگ ان علاقوں میں ایک قدر مشترک اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کی ذات تھی۔
اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف شجاع آباد میں عوامی جلسے سے خطاب کرنے والے تھے۔ اسٹیج پر ان کی نشست کے ساتھ ہی ایک فون سیٹ رکھا ہوا تھا جو کہ ہاٹ لائن سے منسلک تھا۔ اس دور دراز علاقے میں ایسا اہتمام غیرمعمولی حساسیت کی نشاندہی کر رہا تھا۔ مسلم لیگی ایم این اے جاوید علی شاہ کی تقریر کے دوران وزیراعظم نے فون پر کسی سے مختصر بات کی۔ اپنے ملٹری سیکرٹری سے ایک اور ٹیلی فون کال کا کہا۔
اس روز انہوں نے اپنی زندگی کی مختصر ترین سیاسی تقریر کی۔ ان کے لہجے میں تلخی نمایاں تھی اور الفاظ یہ تھے کہ کچھ لوگ مخصوص ایجنڈے کے تحت ان کی حکومت گرانا چاہتے ہیں۔
تقریر کے بعد وہ بغیر وقت ضائع کیے اسلام آباد کی جانب روانہ ہو گئے۔
چوہدری نثار علی خان کے بھائی جنرل ریٹائرڈ افتخار علی خان اس وقت وفاقی سیکرٹری دفاع تھے۔ ایک بیماری کے باعث وہ گھر میں آرام کے لیے نیند لے رہے تھے۔ انہیں جگا کر پیغام دیا گیا کہ وزیراعظم نے انہیں ایئرپورٹ پر ملاقات کے لیے بلا بھیجا ہے۔ وہ جیسے تیسے ایئرپورٹ پہنچ گئے۔

12 اکتوبر 1999 کی شام کا یہ احوال اس وقت کے وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے اپنی کتاب Between Dreams and Realities میں رقم کیا ہے۔(فوٹو: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس)

نواز شریف نے وزیراعظم ہاؤس جاتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ  گاڑی میں بٹھا لیا۔ راستے میں نواز شریف نے انہیں آرمی چیف پرویز مشرف کی ریٹائرمنٹ اور جنرل ضیاء الدین کی بحیثیت آرمی چیف تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا کہا۔ وزیراعظم پرائم منسٹر آفس پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ شہبازشریف اور چوہدری نثار ان سے ملاقات کے منتظر ہیں۔ وہ دونوں سے ملے بغیر اپنے آفس کی طرف چلے گئے۔
فوج کی ہائی کمان میں اس تبدیلی جیسے غیر معمولی اور حساس قدم کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ اس کو جاننے کے لیے ہمیں چار ماہ پیچھے جانا ہو گا۔
نواز حکومت کے وزیر خارجہ سرتاج عزیز اپنی کتاب میں 13 جون 1999 کو نواز شریف کے ساتھ اسلام آباد سے لاہور کے سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نوازشریف کے لہجے کی تلخی اور سختی سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ مشرف کو ہٹانے کا ذہن بنا چکے ہیں۔ جس کی وجوہات میں کارگل آپریشن کو دیگر سروسز چیفس، کورکمانڈرز اور سویلین حکومت سے مخفی رکھنا تھا۔
کارگل آپریشن اصل میں فوج کی ہائی کمان اور سویلین حکومت کے درمیان دراڑ اور دوریوں کی وجہ تھا۔

کیا نواز شریف کو کارگل آپریشن سے لاعلم رکھا گیا تھا؟

اس سوال کا جواب انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے سابق کرنل اشفاق حسین اپنی کتاب Witness to Blunders میں دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک 17 مئی 1999 کو وزیراعظم کابینہ کے کچھ اراکین اور سلامتی کے اداروں کے سربراہوں کے لیے راولپنڈی میں ایک بریفنگ کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈی جی آپریشن جنرل توقیر ضیا نے کارگل کے حوالے سے شرکاء کو بریف کیا۔
اشفاق حسین کے مطابق نواز شریف کابینہ کے رکن جنرل ریٹائرڈ عبدالمجید ملک اور سکریٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ افتخار علی خان نے اس منصوبے پر عسکری اور تکنیکی حوالے سے چھپتے ہوئے سوالات کے ساتھ اپنے تحفظات سے فوجی کمان کو آگاہ کیا۔ اشفاق حسین مزید لکھتے ہیں کہ پرویز مشرف نے پہلی دفعہ کراچی میں کارگل کے حوالے سے لب کشائی کی۔ انہوں نے آرمی چیف سے اس منصوبے کے فوائد کے بارے میں سوال کیا تو مشرف کا جواب تھا کہ یہ مسئلہ کشمیر کے لیے سود مند ہے۔
سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے معروف صحافی سہیل وڑائچ کو دیے گئے انٹرویوز پر مبنی کتاب ’غدار کون ؟‘ میں نواز شریف کارگل کے حوالے سے کہتے ہیں کہ کارگل  کی وجہ سے جنرل مشرف، جنرل عزیز اور جنرل محمود کے دل میں چور تھا کہ نواز شریف ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔ نواز شریف کے مطابق انہوں نے اس حوالے سے اپنے دل سے سب کچھ نکال دیا تھا۔
سرتاج عزیز کے خیال میں اگر نواز شریف کا آرمی چیف کے خلاف ایکشن لینا ناگزیر تھا تو وہ کارگل کے واقعات کے اختتام کے ابتدائی دو تین ہفتوں میں یہ کر دیتے تو فوج کا یہ ردعمل نہ ہوتا۔ اس کی وجوہات میں وہ لکھتے ہیں کہ پرویز مشرف نے اگست میں تمام کور ہیڈ کوارٹرز اور فارمیشنز کا دورہ کرکے فوج کی کمان کو کسی متوقع اقدام کے جواب کے لیے تیار کر دیا تھا۔

سابق صدر پرویز مشرف کے مطابق انہیں اہلیہ سمیت جاتی امرا کھانے پر مدعو کیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سابق صدر پرویز مشرف اپنی سوانح حیات ’ان دی لائن آف فائر‘ میں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ فوج نے طے کر دیا تھا کہ اس بار اگر ان کی کمان کے خلاف کوئی انتہائی قدم اٹھایا گیا تو اس پر ردعمل دیا جائے گا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ انہوں نے مختلف ذریعوں سے حکومت کو  باور کروا دیا کہ وہ جہانگیر کرامت کے سے انداز میں مزید کوئی تضحیک برداشت نہیں کریں گے۔ اس طرح کی صورتحال میں ردعمل یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہو گا۔
اکتوبر 1999 کے شروع میں ہی پاکستانی میڈیا کے ایک حصے میں ’سالیڈیریٹری آپریشن ‘ نامی کسی منصوبے کا ملفوف انداز میں تذکرہ ہونے لگا تھا جس کے مطابق فوج کی اعلیٰ کمان نے 17 اور 26 ستمبر کو ہونے والی میٹنگز میں آرمی کی قیادت کے ہٹائے جانے پر جوابی اقدام کی منصوبہ بندی کی ہے۔
سرتاج عزیز نے 19 ستمبر کو اپنی نیویارک روانگی سے قبل ایک بااعتماد دوست کی زبانی حاصل ہونے والی معلومات کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے مطابق پرویز مشرف کی ٹیم کی کچھ لوگ نواز شریف کو ہٹا کر نئی حکومت بننے کی صورت میں متوقع اور موزوں وزراء اور دیگر محکموں کے ممکنہ سربراہان کے ناموں کی تفصیلات جمع کر رہے تھے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ان کے علم میں یہ بھی آیا کہ ٹرپل ون بریگیڈ کے بریگیڈیئر صلاح الدین ستی نے ایک خفیہ مشق کی ہے، جس میں مارشل لا لگنے کی صورت میں ممکنہ اہداف اور جگہوں کی نشاندہی کی گئی۔ انہوں نے بریگیڈ کے مختلف افسروں کو ان کی ذمہ داریوں اور طریق کار بھی سمجھا دیا تھا۔
اس ساری صورتحال کے برعکس وزیراعظم نوازشریف نے 29 ستمبر کو پرویز مشرف کو جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین  بھی بنا دیا ۔
کیا  نواز شریف مارشل لا کے خطرات سے بے خبر اور بے نیاز تھے؟
سرتاج عزیز نے چار اکتوبر کو وزیراعظم سے دو گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں ان خدشات اور اندیشوں کا ذکر کیا۔ نواز شریف کا جواب تھا کہ پرویز مشرف کے آرمی چیف کے ساتھ ساتھ سروسز چیفس کے چیئرمین کے عہدے پر تعیناتی کے بعد ان خدشات کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ کیونکہ اس نئی تقرری کے بعد پرویز مشرف کی مدت ملازمت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

12 اکتوبر کی شام جنرل محمود اور جنرل اورکزئی وزیراعظم کے پاس آئے اور انہیں ایک کاغذ پر دستخط کرنے کو کہا گیا۔ بقول نواز شریف ان کا جواب تھا ’اوور مائی ڈیڈ باڈی‘۔ (فوٹو: اے ایف پی)

شاید نواز شریف اپنے کاروباری پس منظر کی وجہ سے عہدے، مراعات، ذاتی اور خاندانی تعلقات کے بل پر صورتحال کو سنبھالا دینا چاہتے تھے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے مطابق انہیں اہلیہ سمیت جاتی امرا کھانے پر مدعو کیا گیا۔ اس ملاقات میں نواز شریف کے والد نے انہیں اپنا بیٹا قرار دیا۔ بعدازاں وہ اور وزیر اعظم کے خاندان اکٹھے عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب روانہ ہوئے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے خیال میں پرویز مشرف اس نئے عہدے  کو ان کے آرمی چیف  کے منصب سے ہٹانے کی کوششوں کا حصہ سمجھ رہے تھے۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ آرمی چیف کو ہٹانے کا کوئی پروگرام نہیں رکھتے تھے بلکہ مشرف کے عدم تحفظ کو کم کرنے کے لیے انہیں نئی ذمہ داریاں بھی دی گئیں۔
اس بنتی بگڑتی صورتحال میں کوئٹہ کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز کے عہدے سے ہٹائے جانے اور  فوج سے استعفیٰ دینے کی خبروں نے ماحول کی سنگینی اور رویوں کی تلخی کو عیاں کر دیا۔ اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ انہیں آرمی چیف کی اجازت کے بغیر وزیراعظم سے ملنے پر ہٹایا گیا ہے۔ نواز شریف اپنے انٹرویو میں اس واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف نے انہیں بتایا کہ طارق پرویز نے جی ایچ کیو میں ہونے والی کانفرنس میں کارگل آپریشن کی پلاننگ پر شدید تنقید کی ہے۔ اس نامناسب رویے پر وہ انہیں ہٹانا چاہتے ہیں۔ جب کہ پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں طارق پرویز کی برطرفی کو وزیراعظم کی مرضی کے مطابق قرار دیا ہے۔
10 اکتوبر کو پرویز مشرف سری لنکا روانہ ہونے والے تھے۔ اسی روز طارق پرویز کا یہ بیان سامنے آیا کہ نہ تو وہ وزیراعظم سے ملے ہیں اور نہ ہی انہوں نے اپنی مرضی سے استعفیٰ دیا ہے۔
طارق پرویز کے بیان نے ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ نواز حکومت نے سیکریٹری ڈیفنس کے ذریعے پرویز مشرف کو طارق پرویز کے بارے میں چھپنے والی خبروں کی تردید کا کہا مگر انہوں نے اسے نظرانداز کر دیا اور سری لنکا چلے گئے۔
12 اکتوبر کو پرویز مشرف سری لنکا سے واپسی کے لیے عازم سفر ہوئے۔ ان کی فلائٹ میں زیادہ تر ملک کے اعلیٰ انگریزی سکولوں کے طلبہ سوار تھے۔ طیارہ جونہی پاکستانی حدود میں داخل ہونے لگا تو پائلٹ ثروت حسین کو دبئی جانے کا کہا گیا۔ ان کی جانب سے کم ایندھن کے باعث ایسا کرنے سے معذوری  کا سن کر متبادل کے طور پر نواب شاہ ایئر پورٹ اترنے کا حکم ملا۔
اسی دوران وزیراعظم ہاؤس میں نئے آرمی چیف جنرل ضیاء الدین کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا تھا۔ ان کی فائل پر صدر مملکت کے دستخط لینے نوازشریف خود ایوان صدر گئے۔
کرنل اشفاق حسین کے مطابق سیکرٹری دفاع جب وزیراعظم ہاؤس سے نکلنے لگے تو شہباز شریف نے پیچھے سے آواز دے کر صورت حال جاننا چاہی تو جنرل افتخار کا جواب تھا کہ اپنے بھائی سے پوچھ لیں۔ نئے آرمی چیف نے اپنے پہلے حکم میں جنرل عزیز اور جنرل محمود کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کے احکامات جاری کیے۔

 کرنل اشفاق حسین لکھتے ہیں کہ اس وقت پہلی بار کراچی کی فائیو کور اس کام میں حصہ دار بننے جا رہی تھی۔(فوٹو: گڈ ریڈز)

یہ دونوں جنرلز اس وقت راولپنڈی میں گولف کھیلنے میں مصروف تھے۔ انہیں فوج کی کمان کی تبدیلی کی اطلاع ملی تو وہ فوراً جنرل محمود کے گھر پہنچ گئے، جہاں سے انہوں نے کور کمانڈرز سے رابطے شروع کر دیے۔ ان کا پہلا رابطہ پانچویں کور کے کمانڈر جنرل مظفر عثمانی سے ہوا۔
کرنل ریٹائرڈ اشفاق حسین لکھتے ہیں کہ جنرل عثمانی کو کراچی میں وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری کا فون موصول ہوا۔ انہیں کہا گیا کہ پرویز مشرف کو ایئرپورٹ سے کراچی کے آرمی ہاؤس لےجا کر محبوس رکھا جائے۔ نواز شریف جنرل عثمانی سے رابطے کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے جواباً ملٹری سیکریٹری کو دیے گئے ٹاسک  پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ وہ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ بعد میں جنرل عثمانی کو کیا ہو گیا تھا؟
اس سوال کا جواب بھی کرنل اشفاق حسین اپنی کتاب میں دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس سے قبل حکومتوں کی تبدیلی ٹین کور کے ذریعے ہوتی تھی۔ پہلی بار کراچی کی فائیو کور اس کام میں حصہ دار بننے جا رہی تھی۔ جنرل محمود نے جب جنرل عثمانی سے رابطہ کیا اور انہیں پرویز مشرف کے سری لنکا روانگی سے قبل مخصوص صورت حال سے نمٹنے کے لیے دیے گئے احکامات سے آگاہ کیا۔
اب جنرل عثمانی کا رخ  کراچی ایئرپورٹ کی طرف تھا، جہاں انہوں نے کنٹرول ٹاور کا انتظام سنبھال کر فضا میں معلق پرویزمشرف کی باحفاظت لینڈنگ کو یقینی بنایا، جہاں سے مشرف پہلے آرمی ہاؤس اور پھر کور ہیڈکوارٹر پہنچے۔ کرنل اشفاق حسین نے پی ٹی وی حکام کو ان کی تقریر کی ریکارڈنگ کی تیاری کا بتایا۔
پی ٹی وی اسلام آباد کی عمارت مشرف کی برطرفی کی خبر چلنے کے بعد فوجی جوانوں کے قبضے میں تھی۔ سکرین پر پرویز مشرف کی تقریر کی اطلاع دینے والی پٹی میں انہیں آرمی چیف ہی لکھا جا رہا تھا ۔ تقریر کا حتمی مسودہ خود مشرف، جنرل عثمانی اور کرنل اشفاق نے مل کر تیار کیا۔ رات دو بج کر 45 منٹ پر ان کی نشری تقریر روایتی پروٹوکول یعنی قومی ترانے کی دھن کے بغیر نشر کی گئی۔
ادھر وزیراعظم ہاؤس فوج کے نرغے میں تھا۔ 12 اکتوبر کی شام جنرل محمود اور جنرل اورکزئی وزیراعظم کے پاس آئے اور انہیں ایک کاغذ پر دستخط کرنے کو کہا گیا۔ بقول نواز شریف ان کا جواب تھا ’اوور مائی ڈیڈ باڈی‘۔جس پر انہیں بتایا گیا کہ آپ سے بدلہ لیا جائے گا۔ بعد میں انھیں چند فٹ کے کمرے میں منتقل کر دیا گیا، جس کے شیشوں پر رنگ کر دیا گیا تھا کہ وہ باہر نہ دیکھ سکیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کو دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے قید کی سزا ہوئی، جو ان کے سعودی عرب جانے کے بعد غیرمؤثر ہو گئی۔(فوٹو: اے ایف پی)

نواز حکومت کے خاتمے کے بعد ان کی کابینہ کے ارکان کو حراست میں لے لیا گیا، جن میں سے اسحاق ڈار، چوہدری نثار علی خان اور مشاہد حسین سید کے علاوہ دیگر کو جلد ہی رہائی مل گئی۔ اسحاق ڈار کو اسلام آباد میں نیب کے ہیڈکوارٹر جبکہ باقی دو کو ان کے گھروں میں نظر بند رکھا گیا۔
شہباز شریف، غوث علی شاہ، شاہد خاقان عباسی، سیف الرحمان اور سعید مہدی کو نواز شریف کے ساتھ ہی طیارہ ہائی جیکنگ کے الزامات میں قید میں رکھا گیا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کو دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے قید کی سزا ہوئی، جو ان کے سعودی عرب جانے کے بعد غیرمؤثر ہو گئی۔ کچھ گھنٹوں کے لیے آرمی چیف رہنے والے جنرل ضیاء الدین کو 600 سے زیادہ دن تک قید تنہائی کاٹنا پڑی۔
سیکریٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ افتخار نے دو دن بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا مگر وہ اس وقت حیران رہ گئے جب اخبارات میں ان کی برطرفی اور نئے سیکریٹری کی تقرری کی خبر چھپی جس میں ان کے استعفے کا کوئی ذکر نہ تھا۔
12 اکتوبر کے واقعات کو اپوزیشن کے تمام نمایاں رہنماؤں بشمول بے نظیر بھٹو، مولانا فضل الرحمان، الطاف حسین، طاہر القادری اور اعجاز الحق نے خوش آمدید کہا۔
دسمبر 1999 میں حکومت کی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی گئی۔ چار ماہ کی سماعت کے بعد 29 مئی 2000  کو سپریم کورٹ نے تمام اقدامات کے قانونی ہونے کی  توثیق کر دی۔
کہتے ہیں کہ انقلاب سب سے پہلے اپنے بچوں کو نگلنا شروع کرتا ہے۔ پاکستان کے تمام فوجی ڈکٹیٹرز ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔
پرویز مشرف کے مارشل لا میں کلیدی کردار ادا کرنے والے تین جرنیلوں مظفر عثمانی، محمود احمد اور عزیز کو تھوڑے ہی عرصے میں اہم  اور فیصلہ ساز ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا۔ پرویز مشرف نے اپنے پیش رو جنرل ایوب اور ضیاء الحق کا راستہ اختیار کیا، جنہوں نے پہلی فرصت میں اپنے قریبی رفقاء سے جان چھڑائی تھی۔

شیئر: