Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’غلط خبریں‘، 29 برطانوی صحافیوں کے روس میں داخلے پر پابندی

روس نے الزام لگایا ہے کہ فہرست میں شامل صحافی یوکرین جنگ کے حوالے سے غلط معلومات پھیلا رہے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
روس نے 29 برطانوی صحافیوں کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے جن میں پانچ کا تعلق گارڈین، چار کا بی بی سی ہے جبکہ فائنینشل ٹائمز کے چیف فارن افیئرز بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق روس کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ ’فہرست میں شامل برطانوی صحافی جان بوجھ کر روس اور یوکرین میں دونباس سے متعلق غلط اور یکطرفہ اطلاعات پھیلانے میں ملوث ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ اقدام مغربی پابندیوں، روس سے متعلق غلط خبریں پھیلانے اور برطانوی حکومت کے روس کے خلاف ایکشنز کے جواب میں اٹھایا گیا ہے۔
فہرست میں شامل صحافیوں کا تعلق بی بی سی، سنڈے ٹائمز، ڈیلی میل، دی انڈیپنڈینٹ، ڈیلی ٹیلی گراف، سکائی نیوز اور دیگر اداروں سے ہے۔
فہرست میں ٹائمز، ڈیلی ٹیلی گراف، ڈیلی میل اور انڈیپنڈینٹ کے چیف ایڈیٹرز کے نام بھی شامل ہیں۔
اسی طرح روس نے 20 دیگر افراد پر بھی پانبدی لگائی ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کا تعلق ’دفاعی معاملات‘ سے ہے، ان میں سے فوجی اور فضائی معاملات کے ماہرین کے علاوہ برطانیہ کے وزیر برائے دفاع جیریمی کوئن اور ایئرچیف مائیک وگسٹن بھی شامل ہیں۔
روس نے ان افراد کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’یہ یوکرین کو ہتھیار بھجوانے کے فیصلوں میں شامل ہوتے ہیں جن کو مقامی ڈیتھ سکواڈ اور نازی گروپس مقامی افراد کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔‘
اس سے قبل روس کی جانب سے اس وقت مقامی اور غیرملکی آزاد صحافی اداروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تھا، جب اس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا جبکہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز تک رسائی پر بھی پابندی عائد کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق کئی مقامی میڈیا اداروں کی نشریات اور ان کی ویب سائٹس بند کی گئیں جبکہ غیرملکی اداروں کے خلاف بھی اقدامات کیے گئے جن میں بی بی سی اور ڈوئچے ویلے بھی شامل تھے، ان کی ویب سائٹس بھی بلاک کی گئیں۔
دوسری جانب گارڈین کے ترجمان نے روس کے اقدام کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صحافت کے ایک برا دن ہے اور اب درست اور بااعتماد صحافت مزید اہم ہو گئی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’روس کے اقدام کے باوجود  اور روس کے اس فیصلے کے باوجود ہم روس کے یوکرین پر حملے حوالے سے مضبوط رپورٹنگ جاری رکھیں گے۔‘

شیئر: