خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے ’خوددار بجٹ‘ پیش کیے چند ہی روز گزرے تھے کہ صوبے میں گزشتہ چند برسوں کے دوران عارضی بنیادوں پر تعینات اساتذہ حکومتی پالیسی اور بجٹ اعلانات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پارٹی چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد میں واقع رہائش گاہ پہنچے ہیں۔
پاکستان کے شمال مغربی صوبے سے تعلق رہنے والے اساتذہ ایک ایسے وقت میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہو کر احتجاج کر رہے ہیں جب د وہ خود پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر وفاقی حکومت کے خلاف احتجاجی پروگرام کا اعلان کر چکے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
راجہ ریاض اپوزیشن لیڈر کا مطلب جمہوریت ختم: عمران خانNode ID: 677431
اتوار کو خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع سے قافلوں کی صورت میں بنی گالہ پہنچنے والے اساتذہ ایک منی ٹرک پر ساؤنڈ سسٹم لگا کر جہاں اپنے مطالبات کے حق میں تقاریر کر رہے ہیں وہیں صوبائی حکومت کے رویے کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اساتذہ کے احتجاج کے بعد پیداشدہ صورتحال میں ’اسلام آباد پولیس کی مزید نفری بنی گالہ طلب کی گئی ہے۔‘
اتوار کی رات کیے گئے اعلان میں اسلام آباد پولیس نے ’بنی گالہ میں تعینات مسلح سکیورٹی گارڈز اور خیبرپختونخوا پولیس کو احتجاج کرنے والے اساتذہ کے خلاف اسلحہ استعمال نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔‘
بجٹ پیش کیے جانے سے قبل اور اس کے بعد سے صوبائی حکومت سے اصلاح احوال کا مطالبہ کرنے والے اساتذہ کی ڈیمانڈ پوری ہونا ابھی باقی ہے البتہ اسی دوران حکومت نے ینگ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر عطاء الرحمن کو 16 جون کو ملازمت سے برطرف کر دیا۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب سرکاری حکمنامے میں محکمہ تعلیم کے ضلعی افسر نے لوئر دیر کی تحصیل خال کے گورنمنٹ ہائی سکول میں تدریسی ذمہ داریاں سرانجام دینے والے استاد کی برطرفی کی وجہ ’ایڈہاک کنٹریکٹ ٹیچرز کو حکومت کے خلاف احتجاج پر بھڑکانا بتایا ہے۔‘

ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر میل محمد عزیز علی کے دستخوں سے جاری کردہ حکمنامے میں ’صوبائی حکومت کو بدنام کرنے‘ کو برطرف شدہ استاد کا جرم بتایا گیا ہے۔
اساتذہ صرف عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر عملی احتجاج ہی نہیں کر رہے بلکہ سوشل میڈیا پر ’19 جون بنہ گالہ دھرنے‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بھی اپنے مطالبات پیش کر رہے ہیں۔
