Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے ارکان کی نااہلی کی مدت کے لیے قانون سازی کا اختیار پارلیمان کا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کر دی ہے۔
جمعرات کو دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’سپریم کورٹ کی رائے آئین میں مداخلت کے مترادف ہے۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق 17 مئی کی عدالتی رائے پر نظرثانی کی جائے۔‘
سپریم کورٹ بار نے درخواست میں استدعا کی کہ ’منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کرنے سے متعلق پیراگراف پر نظرثانی کی جائے۔ آرٹیکل 63 اے کے مطابق منحرف ارکان صرف ڈی سیٹ ہوں گے۔‘
خیال رہے کہ 17 مئی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے تین دو کی اکثریت سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ سنایا تھا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ منحرف رکن کا ووٹ کاسٹ ہو سکتا ہے لیکن شمار نہیں ہو گا۔ صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے چوتھے سوال (منحرف ارکان کی نااہلی کی مدت) کو سپریم کورٹ نے واپس صدرِ مملکت کو بھجوا دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے ارکان کی نااہلی کی مدت کے لیے قانون سازی کا اختیار پارلیمان کا ہے۔ 
صدر کی جانب سے دائر کیے جانے والے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے چار سوالات پر رائے مانگی گئی تھی۔ ریفرنس میں پوچھا گیا تھا کوئی رکن اسمبلی پارٹی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے ووٹ دے تو کیا اس رکن کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی؟ اسے ڈی سیٹ نہیں کیا جا سکتا؟ 
سپریم کورٹ سے یہ رائے مانگی گئی کہ کیا ایسے ارکان جو پارٹی پالیسی سے انحراف کریں اور پالیسی کے خلاف ووٹ دیں تو کیا ان کے ووٹ کو شمار کیا جائے گا؟
سپریم کورٹ سے پوچھا گیا کہ کیا جو وفاداری تبدیل کرتے ہوئے رکن پارٹی پالیسی کے خلاف جائے اور ثابت ہو کہ اس نے آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کی ہے تو کیا ایسے رکن کو تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا؟ 
چوتھے سوال میں عدالت سے رائے مانگی گئی تھی کہ ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو روکنے کے لیے موجودہ آئینی ڈھانچے میں کون سے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں جس سے فلور کراسنگ کو روکا جا سکے۔

شیئر: