Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جبری گمشدگیاں: کابینہ کی خصوصی کمیٹی نے کام شروع کردیا

رپورٹ کے مطابق 946 افراد کے حراستی مراکز میں قید ہونے کی اطلاع موصول ہوئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
جبری گمشدگیوں اور لاپتا افراد کے حوالے سے کابینہ کی خصوصی کمیٹی نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ کمیٹی نے اپنے پہلے اجلاس میں تمام سٹیک ہولڈرز سمیت فرحت اللہ بابر اور آمنہ مسعود جنجوعہ کو خصوصی طور پر مدعو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔  
وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کی صدارت میں لاپتا افراد کے حوالے سے کابینہ کی قائم کردہ خصوصی کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو وزارت قانون میں ہوا۔
اجلاس میں وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ شازیہ مری، وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی آغا حسن بلوچ اور وزیر برائے دفاعی پیداوار اسرار ترین کے علاوہ وزارت قانون اور وزارت داخلہ کے اعلٰی افسران بھی شریک ہوئے۔  
 اجلاس میں معاملے کی سنجیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ کمیٹی کا اجلاس ہر ہفتے بلایا جائے گا۔ 
 اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’لاپتا افراد کے حوالے سے کمیٹی صرف کاغذات کی حد تک کام نہیں کرے گی بلکہ عملی طور پر نتائج سامنے آئیں گے۔ کمیٹی کے آئندہ اجلاسوں میں تمام مکاتب فکر کو سنا جائے گا اور صوبائی سطح سے بھی تجاویز لی جائیں گی۔ لاپتا افراد کا معاملہ میرے دل کے بہت قریب ہے۔‘
کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں فرحت اللہ بابر کو خصوصی طور پر مدعو کیا جائے گا، جبکہ ڈیفنس آف ہیومین رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کو بھی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جائے گی۔
30 مئی کو وفاقی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی جو ماہرین قانون، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی نمائندگان کو بھی بلا کر ان سے تجاویز لے گی، اور اپنی رپورٹ اور سفارشات کابینہ کے سامنے رکھے گی۔ ان سفارشات پر بحث کے بعد جبری گمشدگیوں کے حوالے سے قومی پالیسی طے کی جائے گی اور اہم فیصلے کیے جائیں گے۔ 
اس معاملے پر اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈیفینس آف ہیومین رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ کمیٹی کی جانب سے اپنے کام کا آغاز کرنا خوش آئند ہے۔
’میں نے کمیٹی کے تمام ارکان کو الگ الگ خط لکھے تھے کہ مجھے لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے معاملے پر صورت حال کمیٹی کے سامنے رکھنے دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ کمیٹی اور حکومت اس معاملے کی نزاکت اور سنجیدگی کو سمجھیں کہ کتنا ضروری ہے کہ ہم اس مسئلے کا جلد از جلد حل تلاش کریں۔ لاپتہ فراد کے خاندان شدید صدمے سے گزر رہے ہیں حکومت انھیں ریلیف پہنچانے کی کوشش کرے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں امید ہے کہ اگر کمیٹی سنجیدگی سے کام کرے تو اس مسئلے کا حل نہ نکالا جا سکتا ہے۔ کمیٹی کو متعلقہ اداروں کو بھی باور کرانا ہوگا کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے کہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جائے۔ ہم اس معاملے میں اپنی تجاویز دیں گے جو قابل عمل بھی ہیں۔‘  

کابینہ کی جانب سے بنائی گئی خصوصی کمیٹی میں دونوں جماعتوں کے ارکان کو بھی شامل کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

عدالت نے سابق حکومت کے دور میں معاملے پر وفاقی کابینہ کو بریف کرنے اور اس حوالے سے اقدامات اٹھانے کا حکم دیا تھا۔  
جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کے معاملے پر موجودہ اور سابق حکومت کی دو اتحادی جماعتوں بی این پی مینگل اور ایم کیو ایم کو بھی شدید تحفظات ہیں۔
اختر مینگل نے 2018 میں کابینہ میں شامل ہوئے بغیر صرف لاپتہ افراد کے معاملہ حل کرانے کی شرط پر حکومت کی حمایت کی اور عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے لیے ووٹ دیے تھے، تاہم لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہونے پر وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے تھے اور نئی اتحادی حکومت میں شامل ہوئے۔   
اسی طرح ایم کیو ایم کی جانب سے مسلسل سابق حکومت، جس کا وہ خود بھی حصہ تھے، لاپتہ کارکنان کا معاملہ اٹھایا جاتا رہا اور موجودہ حکومت کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کے لیے کیے گئے معاہدے میں بھی یہ معاملہ شامل ہے۔  
کابینہ کی جانب سے بنائی گئی خصوصی کمیٹی میں دونوں جماعتوں کے ارکان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔   
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ 2011 سے لے کر اب تک آٹھ ہزار 463 لاپتا افراد میں سے صرف 3 ہزار 284 افراد اپنے گھر واپس آئے ہیں۔ 228 افراد مختلف مقابلوں میں مارے گئے ہیں اور متعلقہ پولیس نے مقابلوں کی ایف آئی آر ریاست کی بنا پر درج کرکے قانون نے اپنا راستہ اختیار کیا ہے۔ 

متعلقہ ’اداروں‘ کی جانب سے اہل خانہ کے ساتھ قیدیوں کی ملاقاتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ 946 افراد کو ایکشن (ان ایڈ آف سول پاورز) ریگولیشنز 2011 کے تحت حراستی مراکز میں قید ہونے کی اطلاع موصول ہوئی تھی اور متعلقہ ’اداروں‘ کی جانب سے اہل خانہ کے ساتھ قیدیوں کی ملاقاتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔  
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 584 لوگوں سے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ انہیں مجرمانہ اور دہشت گردی کے الزامات میں زیر سماعت قیدیوں کے طور پر جیلوں میں بند رکھا گیا ہے۔  
جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا ہے کہ مکمل تفتیش کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ ایک ہزار 178 کیسز جبری گمشدگیوں کے طور ثابت نہیں ہوئے، کیونکہ ان کیسز میں لاپتا افراد یا تو خود گئے ہیں یا یہ کیسز اغوا برائے تاوان یا ذاتی دشمنی سے متعلق ہیں۔ 

شیئر: