Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایپل اور اینڈرائڈ فونز کو ہیک کیے جانے کا انکشاف

گوگل کے مطابق آر سی ایس لیب نامی کمپنی کے جاسوسی کے ٹولز استعمال کیے گئے (فوٹو: روئٹرز)
انٹرنیٹ کی دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل نے انکشاف کیا ہے کہ اٹلی کی ایک کمپنی کے ٹولز کی مدد سے اٹلی اور قازقستان میں ایپل اور اینڈرائڈ سمارٹ فونز کی جاسوسی کی گئی ہے۔
خبر رساں اداے روئٹر کے مطابق میلان میں واقع آر سی ایس لیب نامی کمپنی کی جانب سے ایسے ٹولز بنائے ہیں جن سے پیغامات اور کانٹیکٹس تک پہنچا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کمپنی کی ویب سائٹ میں یہ دعوٰی بھی کیا گیا ہے کہ یورپ کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس کے کلائنٹس ہیں۔
جاسوسی کی شکایات سامنے آنے کے بعد یورپ اور امریکہ کے نگران ادارے جاسوسی کے آلات کی فروخت اور درآمد کے حوالے ممکنہ نئے قوانین بنانے پر غور کر رہے ہیں۔
دوسری جانب اس حوالے سے موقف کی درخواست کے باوجود اٹلی اور قازقستان کی حکومتوں نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
ایپل کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ کمپنی نے ہیکنگ کی مہم سے تعلق رکھنے والے تمام اکاؤنٹس اور سرٹیفکیٹس منسوخ کر دیے ہیں۔
اسی طرح آر سی ایس لیب نے موقف اپنایا ہے کہ اس کی تمام پیداواری اشیا اور سروسز یورپی قوانین کے مطابق ہیں اور قانون نافذ کرنے والوں کو تحقیقات میں مدد بھی دیتی ہیں۔
اس کے ترجمان نے روئٹرز کو ایک ای میل کے ذریعے بتایا کہ ’آر سی ایس لیب کے اہلکار ایسی کسی بھی بات کو افشا نہیں کرتے اور نہ ہی کسی سرگرمی میں حصہ لیتے ہیں جو صارفین سے متعلق ہو۔‘
بیان میں اس کی اشیا کو غلط استعمال کیے جانے کی بھی مذمت کی گئی ہے۔
گوگل کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے اینڈرائڈ صارفین کے تحفظ کے لیے ضروری قدم اٹھائے ہیں اور صارفین کو جاسوسی کے ٹولز کے بارے میں خبردار بھی کر دیا ہے۔
عالمی سطح پر ایسی صنعت ترقی کر رہی ہے جو حکومتوں کے لیے جاسوسی کے آلات بنانے سے متعلق ہے۔ اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے خصوصی ٹولز کی تیاری بھی شامل ہے۔ تاہم دوسری جانب جاسوسی کے مخالف ادارے یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ ان سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور کئی بار ان کو ایسے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو شہری حقوق کے خلاف ہوتے ہیں۔
جاسوسی کے ٹولز بنانے والی صنعت عالمی سطح پر اس وقت سامنے آئی تھی جب اسرائیل کے جاسوسی کے ادارے این ایس او کے ایسے آلات منظرعام پر آئے جن کو حکومتوں، صحافیوں اور مخالف رائے رکھنے والوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

شیئر: