Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دعا زہرا کیس کا تفتیشی افسر بدلنے کا معاملہ، ایڈیشنل آئی جی اور ایس ایس پی کو نوٹس

سندھ ہائی کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا تھا کہ لڑکی کے اغوا ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)
کراچی سے لاہور جا کر پسند کی شادی کرنے والی لڑکی دعا زہرا کے والد مہدی کاظمی کی کیس کے تفتیشی افسر کی تبدیلی کی درخواست پر عدالت نے ایڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشن، ایس ایس پی انویسٹی گیشن ایسٹ اور کیس کے تفتیشی افسر سے جواب طلب کرلیا ہے۔
عدالت نے آئندہ سماعت تک فریقین کو جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کراچی میں دعا زہرا کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر نے کیس کے تفتیشی افسر کی تبدیلی کی درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’مدعی مہدی کاظمی نے 17 جون کو آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشن کو درخواست دی۔ اس کے باوجود اب تک پولیس حکام نے تفتیشی افسر کو تبدیل نہیں کیا ہے۔‘
’مدعی مہدی کاظمی اور اہل خانہ کو موجودہ تفتیشی افسر پر اعتماد نہیں ہے۔ عدالت تفتیشی افسر کو تبدیل کرنے اور ان کی جگہ کسی قابل افسر کو مقرر کرنے کے احکامات جاری کرے۔‘  
بدھ کو عدالت نے درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے آئندہ سماعت تک فریقین کو جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے ایڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشن، ایس ایس پی انویسٹی گیشن ضلع شرقی اور کیس کے تفتیشی افسر سے بھی جواب طلب کر لیا ہے۔  
یاد رہے کہ دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کی درخواست پر محکمہ صحت نے دعا کے عمر کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تھا۔
میڈیکل بورڈ کی سربراہ ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل پروفیسر صبا سہیل کو مقرر کیا گیا تھا۔ میڈیکل بورڈ نے دعا زہرہ کو 29 جون کو پیش کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔  
دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی نے اپنی بیٹی کے عمر کے تعین کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد محکمہ صحت سندھ کو میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست دی تھی جس پر محکمہ صحت سندھ نے بورڈ تشکیل دیا تھا۔  
سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر کیے گئے میڈیکل ٹیسٹ کی رپورٹ کے مطابق دعا زہرہ کی عمر 16 سے 17 سال کے درمیان ہے۔
منگل کو محکمہ صحت نے مقامی عدالت کو ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل صبا سہیل کی سربراہی میں کراچی کی نوعمر لڑکی کی اصل عمر معلوم کرنے کے لیے 10 رکنی میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے بارے میں بتایا تھا۔
عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ایم ایس سروسز ہسپتال، پولیس سرجن اور سول ہسپتال کے طبی ماہرین میڈیکل بورڈ کا حصہ ہوں گے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مہدی کاظمی سے کہا کہ وہ دعا زہرا کیس میں میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کریں (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

اس سے قبل سماعت میں کیس کے آئی او نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے چالان جمع کرایا تھا، جس میں عدالت پر زور دیا گیا تھا کہ دعا زہرہ کیس کی ایف آئی آر کو ’سی کلاس‘ میں درجہ بندی کرنے کے بعد منسوخ کیا جائے۔  
واضح رہے کہ دعا زہرہ کے اہل خانہ نے 16 اپریل کو الفلاح ٹاؤن کراچی میں اپنے گھر کے قریب سے مبینہ طور پر لاپتا ہونے کے چند گھنٹے بعد پولیس سے رابطہ کیا تھا۔
لاپتا ہونے کے چند دن بعد پولیس کو پتا چلا کہ دعا زہرہ نے لاہور میں ظہیر نامی لڑکے سے شادی کی تھی۔  
لاہور کی عدالت نے دعا کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد اسے سندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے لڑکی کا طبی معائنہ کرانے کا حکم دیا۔ طبی معائنہ کار نے بتایا کہ اس کی عمر 16 سے 17 سال کے درمیان ہے۔  
بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا کہ لڑکی کے اغوا ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے اور متعلقہ حکام کو اغوا کے مقدمات درج کرنے سے روک دیا۔  
 سندھ ہائی کورٹ نے لڑکی کے مبینہ اغوا سے متعلق والدین کی جانب سے دائر درخواست کو بھی نمٹا دیا تھا۔ اس کے بعد لڑکی کے والد نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا۔  
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مہدی کاظمی سے کہا کہ وہ دعا زہرا کیس میں میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔

شیئر: