Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان بتائیں کہ انہیں کیسے ہراساں اور تنگ کیا جا رہا ہے؟ رانا ثنا اللہ

وزیر داخلہ کے مطابق عسکری قیادت نے تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی کی تجویز دی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ’عمران خان نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ ہمیں ہراساں اور تنگ کیا جا رہا ہے، آپ بتائیں کہ آپ کو کیسے ہراساں کیا جا رہا ہے؟‘
بدھ کو ایک ٹویٹ میں وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’کیا آپ کے خلاف مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں یا کوٹ لکھ پت جیل میں بند، ادویات بند، گھر کے کھانے کی سہولت نہیں دی جارہی؟ انہیں یہ بات کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔‘
’عمران خان گذشتہ ساڑھے تین سال کے دوران اپنے مخالفین کے ساتھ یہ سب کچھ کرتے رہے ہیں، آپ کے ساتھ تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔‘
رانا ثنا اللہ کے مطابق ’یہ سوال کرنا کہ اس قوم کا 50 ارب کا غبن کرانے کے لیے 5 ارب روپے کے اثاثے اپنی اہلیہ، 240 کنال اراضی بنی گالہ میں فرح گوگی کے نام پر حاصل کی، اس سے آپ تنگ ہو رہے ہیں تو اس کا آپ کو جواب دینا ہوگا۔‘
پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات میں کسی بات پر اتفاق یا مسترد کرنے کا مرحلہ نہیں آیا۔
بدھ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ ’قومی سلامتی کمیٹی کی بریفنگ میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات پر اتفاق کیا تاہم ابھی مذاکرات کا مرحلہ نہیں آیا، یہ بات چیت سے پہلے کی سٹیج ہے۔‘
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’قومی سلامتی کمیٹی میں دو چیزیں بڑے واضح انداز میں سامنے آئیں۔ ایک ہوتے ہیں مذاکرات اور ایک ہوتا ہے مذاکرات سے پہلے کا مرحلہ، ابھی وہ  مرحلہ ہے جس میں اس پر گفتگو ہوتی ہے کہ مذاکرات کیے جائیں یا نہ کیے جائیں اور اگر کیے جائیں تو کن امور پر کیے جائیں، اگر کرے تو کون کرے۔ دوسری طرف سے آئے تو کون آئے۔‘
وزیر داخلہ کے مطابق ’تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے کہا کہ مذاکرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا پوری دنیا میں ہر مسئلے پر بالآخر مذاکرات ہوئے ہیں۔‘

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’طالبان سے مذاکرات میں کسی بات پر اتفاق یا مسترد کرنے کا مرحلہ نہیں آیا‘ (فائل فوٹو: آئی ایس پی آر)

انہوں نے کہا کہ عسکری قیادت نے تجویز دی کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہوں جو اس پر کام کریں۔
’یہ طے پایا کہ پارلیمنٹ کی اجازت سے ہی مذاکرات میں کوئی بات تسلیم یا اس کو مسترد کریں گے۔‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ بعض شرکا کا مؤقف تھا کہ مذاکرات سے یہ تاثر نہ جائے کہ ریاست کمزور ہے مگر کسی نے یہ نہیں کہا کہ مذاکرات نہ کیے جائیں۔
رانا ثنا اللہ سے پوچھا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں پشاور کے کور کمانڈر جنرل فیض حمید کی بریفنگ کیسی تھی تو ان کا جواب تھا کہ ’بریفنگ جامع تھی اور اس میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔ ڈی جی آئی اور آرمی چیف نے بھی بریفنگ میں ان کی مدد کی۔ تمام شرکا مطمئن تھے۔ بریفنگ میں انہوں نے اپنی رائے نہیں دی بلکہ معلومات فراہم کیں۔‘

شیئر: