Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیل میکنگ کی سیاست کو دھچکا: ماریہ میمن کا کالم

عمران خان نے حکومت سے نکلنے کے بعد بھی عوام کے ساتھ بہترین رابطہ رکھا (فوٹو: اے ایف پی)
اتوار کی رات پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے غیرحتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق تحریک انصاف پندرہ نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے اور مسلم لیگ نون نے چار سیٹیں جیتی ہیں جبکہ ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔  
 ان نتائج نے مقبول تجزیوں ، اندازوں اور اندیشوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ویسے تو الیکشن لڑنے والی جماعتیں اپنے اکثریت کے دعوے کرتی ہی ہیں مگر ہر الیکشن میں ایک عمومی اندازہ ہوتا ہے جس کو ہوا یا ٹرینڈ کہا جا سکتا ہے۔
اس الیکشن میں اپنی فتح کے دعوؤں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی طرف سے دھاندلی یا بیرونی ہاتھ کا اندیشہ بار بار دہرایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی عام تھا کہ جس طرح پی ٹی آئی کو اقتدار  سے نکالا گیا اس کے بعد دوبارہ اس کی واپسی مشکل ہے، مگر تجزیے ، اندازے اور اندیشے ہوا ہوئے اور عوام نے کھل کر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔
اس فیصلے میں کئی سبق ہیں۔ سب سے پہلے تو تحریک انصاف کے لیے سیاسی طور پر یہ ایک سنگ میل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف نے اپنے آپ کو عوام میں بدستور مقبول رکھا مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کی قیادت میں دو تاثر ہمیشہ تقویت میں رہے، ایک اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور دوسرا الیکٹیبلز پر انحصار۔
یہ ضمنی انتخابات الیکٹیبلز کے ہی ساتھ چھوڑنے کی وجہ سے ہوئے اور عوام نے یہ ثابت کیا کہ وہ قومی سطح کی قیادت اور بیانیے کے ساتھ چلتے ہیں نہ کہ مقامی دھڑے کی سیاست میں ملوث ہوتے ہیں۔

چوہدری پرویز الٰہی کے وزیراعلٰی بننے کی راہ ہموار ہو گئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

وفاداری تبدیل کرنے والے ارکان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پارٹی نے اپنی پوزیشن مستحکم کی۔ اس میں آئندہ کے لیے یقیناً اہم سبق ہے۔ 
دوسری طرف ان انتخابات میں ڈیل میکنگ کی سیاست کو بھی دھچکا لگا ہے۔ تحریک انصاف ہو یا ن لیگ یا پھر پیپلز پارٹی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں ڈیل کی خواہش یا حسرت ضرور موجود رہی ہے۔ عوام البتہ ڈیل میکنگ کو ہمیشہ مسترد کرتے آئے ہیں۔
ان ضمنی انتخابات میں عوام کا پیغام واضح ہے۔ اگر لیڈر کھل کر عوام کے سامنے آئیں گے، اپنا مدعا اور بیانیہ ان کے سامنے رکھیں گے اور ان کے ساتھ ایک کنیکشن بنائیں گے تو عوام ضرور اس کا مثبت جواب دیں گے۔

’شہباز شریف نے اپنے آپ کو توقعات کے برعکس جوڑ توڑ میں ماہر ثابت کیا‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اس دفعہ عوام کا جواب واضح ہے، امید ہے کہ اس میں تحریک انصاف کے لیے سبق ہو گا کہ نیوٹرل کو نیوٹرل رہنے میں شاید ان کا فائدہ ہی ہو۔ وہ پارٹی جس نے اقتدار سے باہر آ کر جو کم بیک کیا ہے اس کی وجہ مزاحمت کی سیاست ہے نہ کہ کوئی ڈیل۔ 
ضمنی انتخابات میں ن لیگ کی سیاست کو جو دھچکا لگا ہے وہ بھی دور رس ہے۔ ابھی تک شہباز شریف نے اپنے آپ کو توقعات کے برعکس جوڑ توڑ میں ماہر ثابت کیا اور تقریباً تمام اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوئے۔
ن لیگ کے اندر یہ تاثر مضبوط ہو رہا تھا کہ شہباز برانڈ کی سیاست ہی کامیاب ہے۔ اگرچہ مریم نواز نے اپنی طرف سے تگڑی کمپین کی مگر ووٹ بہرحال شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے کے لیے ہی تھے اور وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
وہ نہ ہی عوام کے ساتھ اس طرح کا رابطہ بنا سکے جس طرح عمران خان نے قائم رکھا بلکہ پی ٹی آئی سے آئے ہوئے وفاداری بدلنے والوں کو ٹکٹ دینے میں ان کے اپنے ووٹ بنک کی طرف سے ایک ہچکچاہٹ صاف نظر آئی۔

ضمنی الیکشن سے قبل مریم نواز نے پنجاب میں تگڑی مہم چلائی (فوٹو: پی ایم ایل این)

آئندہ ن لیگ کے اندر مریم نواز انداز کی سیاست ان نتائج سے اور پروان چڑھے گی۔
سوال یہ بھی ہی کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کے نتیجے میں عوام کی طرف سے تحریک انصاف کے حق میں اس طرح ایک لہر کی صورت میں حمایت ملی۔ کیا امپوڑٹڈ حکومت کا بیانیہ آخر کار عوام میں پذیرائی حاصل کر چکا ہے؟ یا پھر اس میں اصل وجہ مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ ہے۔
کیا باپ وزیراعظم اور بیٹا وزیر اعلٰی والا بندوبست عوام نے مسترد کیا ہے یا پھر یہ وفاداری قبول کرنے والوں کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے؟ کیا یہ لہر وقتی ہے اور ایک سال تک قائم نہیں رہے گی یا پھر عمران خان ملک تاریخ میں پہلے وزیراعظم ہوں گے جو اقتدار سے نکلنے کے فوراً بعد پہلے سے بھی زیادہ مقبول ہو چکے ہیں؟

ضمنی انتخابات میں فتح پی ٹی آئی کے لیے ایک سنگ میل ہے (فوٹو: اردو نیوز)

ان سوالات کے حتمی جوابات کا تعین مشکل ہے مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان تمام عوامل کا ہی کچھ نہ کچھ رول ضرور ہے۔ عوام نے حکومت جانے کے طریقے پر بھی رائے دی ہے اور متبادل کو تو مسترد کیا ہے، اسی کو جمہوریت کا حسن کہنا چاہیے۔
آخر میں سوال یہ بھی ہے کہ مستقبل کی سیاسی صورت حال کیا ہو گی؟ کیا  ن لیگ اور پی ڈی ایم کے ترکش میں کوئی اور تیر ہے یا پھر صوبے اور وفاق میں دو مختلف حکومتیں ہوں گی۔ اگر ایسا ہوا تو مرکز میں ایک کمزور ترین اکثریت کے ساتھ حکومت کتنی دیر چلے گی، فی الحال تو پی ٹی آئی کے امیدوار پرویز الہی وزیراعلیٰ بنتے نظر آتے ہیں۔
کیا پی ٹی آئی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیاں توڑ کے ایک بحران پیدا کرے گی یا پھر حکومت سنبھال کر وفاق کو ٹف ٹائم دے گی۔ ان سوالات کے جوابات بھی اگلے کچھ دن میں واضح ہو جائیں گے، فی الحال تو پی ٹی آئی کا ووٹر اپنی پارٹی پر مکمل اعتماد کے ساتھ کھڑا ہے  چاہے وزیر اعلٰی عثمان بزدار ہوں یا پرویز الہی۔

شیئر: