Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آگے کا واحد راستہ قابل اعتبار الیکشن کمیشن کی زیرنگرانی شفاف الیکشن‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے 20 حلقوں میں ضمنی انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے جبکہ غیرحتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق تحریک انصاف کو برتری حاصل ہے۔
عیر حتمی اور غیر سرکاری بتائج کے مطابق پی ٹی آئی 20 میں سے 15 حلقوں ن لیگ چار اور ایک نشست پر آزاد امیدوار کامیاب ہو گئے ہیں۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات میں جیت کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ اب یہاں سے آگے جانے کا واحد راستہ قابل اعتبار الیکشن کمیشن کی زیرنگرانی صاف و شفاف الیکشن کرانا ہے۔
ٹوئٹر پر عمران خان نے لکھا کہ ’اس کے علاوہ کوئی بھی راستہ زیادہ سیاسی غیر یقینی اور مزید معاشی بحران پر کی طرف لے جائے گا۔‘  
عمران خان نے ضمنی انتخابات میں ’کامیابی‘ پر ووٹرز اور ورکرز کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
ایک اور ٹویٹ میں عمران خان نے لکھا کہ ’سب سے پہلے میں پی ٹی آئی کے ورکرز اور پنجاب کے ووٹرز کا نہ صرف مسلم لیگ ن بلکہ پوری ریاستی مشینری اور خاص طور پر پولیس کی جانب سے ہراسانی اور مکمل جانبدار الیکشن کمیشن پاکستان کو شکست دینے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ تمام اتحادیوں، پاکستان مسلم لیگ ق، ایم ڈبلیو ایم اور سنی اتحاد کونسل کا شکریہ۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عوام کو یہ قبول نہیں کہ ان کے فیصلے بند کمروں میں ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی چیئرمین عمران خان نے کل پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس بلایا ہے جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 22 جولائی کو پرویز الہی پنجاب کے وزیراعلیٰ بن جائیں گے۔
عمران خان کہیں تو اسمبلی توڑنے میں دو سیکنڈ نہیں لگائیں گے: پرویز الہی
چودھری پرویز الہی نے کہا  کہ ان کا ایمان ہے کہ جو اللہ آپ کے لیے چاہتا ہے وہی بہتر ہوتا ہے۔
ان کے مطابق عمران خان نے بلدیاتی الیکشن میں کمال کر دکھایا اور ناممکن کو ممکن بنا دیا۔
ایک سوال کے جواب میں پرویز الہی نے کہا کہ اگر عمران خان اسمبلی توڑنے کا کہیں گے تو وہ دو سیکنڈ بھی نہیں لگائیں گے۔
پرویز الہی نے کہا کہ ’مونس نے مجھے پکڑ کر رکھا اور کہا ہم نے ہلنا نہیں ہے۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں پرویز الہی نے کہا کہ وہ عمران خان کو مشورہ ضرور دیں گے لیکن آخری فیصلہ ان کا ہوگا۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نوازشریف نے نتائج تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
ضمنی انتخابات کی پولنگ صبح آٹھ بجے شروع ہو کر بلاتعطل شام پانچ بجے تک جاری رہی۔
پولنگ کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ تمام حلقوں میں عمومی طور پر پولنگ کی صورتحال پر امن اور تسلی بخش رہی۔
الیکشن کمیشن نے شام 6 بجے کے بعد میڈیا کو غیر حتمی نتائج کا اعلان کرنے کی اجازت دی تھی۔ 
خیال رہے کہ یہ انتخاب ان 20 حلقوں میں ہوا ہے جن کے منتخب اراکین نے وزیراعلٰی پنجاب کے انتخاب میں تحریک انصاف کی پارٹی پالیسی سے ہٹ کر حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا۔

ضمنی انتخابات کی پولنگ صبح آٹھ بجے شروع ہو کر بلاتعطل شام پانچ بجے تک جاری رہی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے ان تمام اراکین کو ڈی سیٹ کر دیا تھا۔
مسلم لیگ ن نے تقریباً تمام ٹکٹ ان منحرف اراکین کو دیے جنہوں نے وزیراعلٰی کے انتخاب میں ان کا ساتھ دیا تھا۔ تاہم تحریک انصاف اپنے امیدواروں کو ہی سامنے لائی۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی پارٹی کم از کم 15 نشستوں جیت رہی ہے۔‘
اس سے قبل عمران خان نے پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’پنجاب حکومت نے آج کے انتخاب میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ کے ذریعے عوام کو ہراساں کرکے اور ووٹوں پر غیرقانونی ٹھپوں سے دھاندلی کے لیے پوری سرکاری/ ریاستی مشینری کے کھلے استعمال کے ذریعے انتخابی قواعد پامال کیے ہیں۔‘

اس الیکشن کے نتائج اہم کیوں ہیں؟

یاد رہے کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا دارومدار اب ان 20 حلقوں پر ہے۔ یہاں کامیابی مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کو مستقل وزیراعلیٰ بنا سکتی ہے یا پھر دوسری صورت میں تحریک انصاف کے امیدوار سپیکر پرویز الٰہی کو وزارت اعلٰی سونپ سکتی ہے۔
مسلم لیگ نواز کو وزارت اعلٰی برقرار رکھنے کے لیے کم سے کم 11 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا ہو گی جبکہ پی ٹی آئی کو وزارت اعلی کی دوڑ جیتنے کے لیے ان 20 میں سے 13 نشستیں جیتنا ہوں گی۔

 

شیئر: