Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’انڈیا میں تاریخ رقم‘، قبائلی خاتون سیاست دان صدر منتخب

دروپدی مرمو پرتیبھا دیوی سنگھ پاٹل کے بعد دوسری خاتون ہیں جو انڈین صدر کے طور پر خدمات انجام دیں گی (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا نے قبائلی برادری سے تعلق رکھنے والی خاتون سیاست دان دروپدی مرمو کو اپنا نیا صدر منتخب کرلیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق مشرقی ریاست اڈیشہ سے وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکن 64 سالہ دروپدی مرمو کا تعلق سنتھل قبیلے سے ہے۔
یہ قبیلہ انڈیا کے 700  قبائل میں سے ایک ہے جو ملک کی ایک ارب 40 کروڑسے زائد آبادی کا تقریباً نو فیصد ہیں۔
الیکشن کمیشن کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور انڈیا کی ہر ریاست کی قانون ساز اسمبلیوں کے قانون سازوں کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی اکثریت حاصل کر لی ہے۔
الیکشن کمیشن کے نتائج کے بعد مودی نے سوشل میڈیا پر دروپدی مرمو کی جیت کا اعلان کیا۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ اس کامیابی پر دروپدی مرمو جی کو مبارکباد۔‘
’انڈیا میں تاریخ رقم ہوئی۔ ایک ایسے وقت میں جب ایک ارب 30 کروڑ انڈین شہری آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں، انڈیا کی ایک بیٹی جو مشرقی انڈیا کے ایک دور دراز حصے میں پیدا ہونے والی قبائلی برادری سے تعلق رکھتی ہے، ہماری صدر منتخب ہوئی ہے۔‘
دروپدی مرمو پرتیبھا دیوی سنگھ پاٹل کے بعد دوسری خاتون ہیں جو انڈین صدر کے طور پر خدمات انجام دیں گی۔
انڈیا کے صدر رام ناتھ کووند کے عہدے کی میعاد 25 جولائی کو ختم ہو رہی ہے۔
دروپدی مرمو کے مدمقابل اپوزیشن کے امیدوار یشونت سنہا تھے جو 2018 میں پارٹی چھوڑنے سے پہلے بی جے پی کے ایک سینیئر رہنما تھے۔
84 سالہ سنہا 1998 سے 2002 تک سابق ​​بی جے پی حکومت میں ملک کے وزیر خزانہ کے طور پر اور 2002 سے 2004 کے درمیان بطور وزیر خارجہ خدمات انجام دے چکے ہیں۔
دروپدی مرمو کی وجہ سے رواں سال گجرات اور اگلے سال چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں قبائلی ووٹروں کو جیتنے کی بی جے پی کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔
ہندو قوم پرست سیاست میں ماہر سمجھے جانے والے دہلی کے ایک مصنف اور تجزیہ کار نیلنجن مکوپادھیائے سمجھتے ہیں کہ ’ضروری نہیں کہ جیت انتخابی فائدے میں بدل جائے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’دروپدی مرمو کی جیت ملک کے قبائلیوں کے لیے اہم نہیں، یہ محض علامتی ہے۔ یہ مودی کے لیے گیم چینجر نہیں ہے۔ انہوں نے حزب اختلاف کی جماعتوں کو بہت سی مشکلات میں ڈال دیا ہے کیونکہ بی جے پی اب یہ کہنے کے قابل ہو گئی ہے کہ آپ ایک قبائلی خاتون کی حمایت نہیں کر رہے لیکن اس سے آگے مودی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
مکوپادھیائے کا کہنا ہے کہ ’یہ واقعی ان کی بہتری میں مدد نہیں کرے گا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں پسماندہ لوگوں کی حالت وہی رہی۔‘

شیئر: