Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعلٰی پنجاب کا انتخاب، سپریم کورٹ سے فُل کورٹ بنانے کی استدعا

درخواست کے مطابق ’منحرف ارکان کی اپیلیں منظور ہو گئیں تو صورتحال تبدیل ہوجائے گی‘ (فوٹو: فیس بک)
سپریم کورٹ میں وزیراعلٰی پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواست پر سماعت شروع ہو گئی ہے۔
پیر کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کی درخواست سماعت کر رہا ہے۔
سماعت شروع ہوئی تو سینئر وکیل اور سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم پر آئے اور موقف اپنایا کہ ’بحران بڑھ رہا ہے، پورا سسٹم داؤ پر لگا ہوا ہے۔‘
انہوں نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دے کر تمام مقدمات کو یکجا کرکے سنا جائے۔
لطیف آفریدی نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرثانی کرنے کی بھی استدعا کی۔
ڈپٹی سپیکر کے وکیل عرفان قادر نے موقف اپنایا کہ ’میرے ذہن میں کافی ابہام ہے‘ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’میرے مطابق ہمارے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔‘
اس دوران چیف جسٹس اور ڈپٹی سپیکر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ عدالت کی بات پہلے سن لیں،اگر آپ نے ہماری بات نہیں سننی تو کرسی پر بیٹھ جائیں۔‘
عرفان قادر نے کہا کہآپ چیف جسٹس ہیں، آپ تو ہمیں ڈانٹ پلا سکتے ہیں لیکن آئین میں انسان کے وقار کا ذکر بھی ہے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے عرفان قادر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں تو آپ کو محترم کہہ کر پکار رہا ہوں۔’
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ڈیکلریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایت ایک ہی شخص دے سکتا ہے؟ آئین کے مطابق واضح ہے کہ ڈائریکشن پارلیمانی پارٹی دے گی۔
جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیے کہ ’پارٹی سربراہ ممبران کی نااہلی یا ڈی سیٹ کرنے کے لیے ریفرنس بھیج سکتا ہے۔‘

حکومتی اتحادیوں اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے وزیراعلٰی پنجاب کے انتخاب کے معاملے میں فل کورٹ بینچ کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہو سکتا ہے؟ جس پر حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں درج ہے کہ پارٹی سربراہ کا کردار پارٹی کو ڈائریکشن دینا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے نشاندہی کی کہ 14’ ویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی گئی،ترمیم شدہ آرٹیکل 63 اے پڑھیں۔‘
دوسری جانب وزیراعلٰی پنجاب حمزہ شہباز نے وزیراعلٰی پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی ہے۔
حمزہ شہباز کی جانب سے دائر درخواست میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف منحرف ارکان کی اپیلیں بھی رولنگ کیس کے ساتھ سننے کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی 22 جولائی کو دی گئی رولنگ درست ہے، الیکشن کمیشن نے منحرف ارکان کے خلاف فیصلے میں عمران خان کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات کو تسلیم کیا۔‘
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’سپریم کورٹ میں منحرف ارکان کی اپیلیں منظور ہو گئیں تو صورتحال یکسر تبدیل ہوجائے گی، 25 منحرف ارکان کے نکالے گئے ووٹ بھی  گنتی میں شمار ہوں گے۔‘
درخواست کے مطابق چوہدری شجاعت حسین کا اپنے ایم پی ایز کو لکھا گیا خط بھی آئین اور قانون کے مطابق درست ہے۔
حمزہ شہباز نے درخواست میں  آرٹیکل 63 اے کے فیصلے پر نظر ثانی کی دائر درخواستوں پر بھی ایک ساتھ سماعت کی استدعا کی ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق صرف ان رہنماؤں کوعدالت میں داخلے کی اجازت ہو گی جن کے نام پارٹیوں کی جانب سے سپریم کورٹ سیکیورٹی کو دیے گئے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سپریم کورٹ نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
سنیچر کو سپریم کورٹ نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے وزیراعلٰی پنجاب حمزہ شہباز شریف کو ٹرسٹی وزیراعلٰی بناتے ہوئے ان کے اختیارات محدود کر دیے تھے۔
’عدالت ہی بتائے گی ٹرسٹی وزیراعلٰی کیا ہوتا ہے؟‘
اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر اعظم نذیر نے کہا ہے کہ ’63 اے کا مقدمہ سب سے اہم ہے اور لارجر بینچ بننا ضروری ہے تاکہ انصاف ہوتا نظر آئے، جبکہ عدالت ہی فیصلہ جاری کرے گی کہ ٹرسٹی وزیراعلٰی‘ کا مطلب کیا ہے۔‘
لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک چینل مریم نواز اور مریم اورنگزیب کے نام چلا رہا ہے کہ عدالتوں کی کے خلاف کمپین چلا رہے ہیں لیکن ن لیگ اداروں اور عدالتوں کا احترام کرتی ہے ہم ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ابھی تک چوہدری شجاعت کا خط عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ اسد عمر کا خط موجود ہے کہ عمران خان کی ہدایت ہے کہ ق لیگ کو ووٹ دیئے جائیں۔  پرسوں ق لیگ کے پارلیمانی لیڈر کا پتہ چلا، پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ کہاں ہوئی ہے؟ میٹنگ منٹس کہاں ہیں؟ اس لیے اس میں حرج کوئی نہیں ہے کہ فل کورٹ کو بٹھایا جائے۔‘
بیرسٹر اعظم نذیر کا کہنا تھا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئینی اور قانونی ہے۔ بذریعہ سیکریٹری جنرل خط آیا جس میں عمران خان کے کہنے پر ہمارے 25 ووٹ کم ہو گئے۔ چوہدری شجاعت نے ق لیگ کو کہا کہ حمزہ شہباز کو ووٹ دیں۔
’اس وقت پاکستان کو سیاسی لحاظ سے ایسی کیفیت کا سامنا ہے کہ آئینی اور قانونی معاملات حل طلب ہیں۔ متفقہ مطالبہ ہے کہ وزیراعلٰی پنجاب کے انتخاب کا معاملہ عدالت عظمیٰ کا فُل کورٹ سنے۔

فواد چودھری نے کہا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے حوالے سے مسلم لیگ ن کا رویہ سیسلین مافیا والا ہے۔‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا بھی کہنا تھا کہ ’ہمارا یہ متقفہ مطالبہ ہے کہ وزیراعلٰی پنجاب کے انتخاب کا معاملہ عدالت عظمیٰ کا فُل کورٹ سنے۔
مولانا فضل الرحمان نے اتوار کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیراعلٰی پنجاب کے انتخاب کا معاملہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ معاملہ فوری طور پر عدالت میں لے جانا باعث تشویش ہے۔
’کسی بھی پارٹی کا سربراہ ہی فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ باقی سب اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کو بھی اہم امور پر پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا ’چوہدری شجاعت کے خط کے بعد مونس الہیٰ نے خود اعلان کیا کہ ہم ہار گئے ہیں۔ تعجب یہ ہے کہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ اس وقت اس نکتے پر بحث کر رہی ہے کہ ہمیں یہ کیس سمجھ نہیں آ رہا ہے۔ ایک بدیہی مسئلے کو نظری مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔
سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ ’ہمارا متفقہ مطالبہ ہے کہ یہ کیس سپریم کورٹ کا فُل کورٹ سنے تاکہ عدالت کا وقار بحال رہے۔ تین یا پانچ ججوں کا کوئی فیصلہ شاید لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکے گا۔

ججز کو بلیک میل کرنے کی کوشش کے نتائج خطرناک

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے خبردار کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کو بلیک میل کرنے کی کوشش کے نتائج خطرناک ہوں گے۔
پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری کا کہنا تھا کہ ’عدالتی فیصلوں کی تضحیک کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے حوالے سے مسلم لیگ ن کا رویہ سیسلین مافیا والا ہے اور سپرم کورٹ کے ایک جج نے ان کو صیحح سیسلین مافیا کہا تھا۔‘

تنازع کیا ہے؟

جمعے کو پنجاب اسمبلی میں وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں چوہدری پرویز الٰہی نے 186 ووٹ حاصل کیے جبکہ حمزہ شہباز کو 179 ووٹ ملے تھے۔ تاہم ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے چوہدری شجاعت کے خط کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ ق کے 10 ارکان کے ووٹ مسترد کر دیے جس کے بعد پرویز الٰہی کے ووٹوں کی تعداد 176 جبکہ حمزہ شہباز کے ووٹوں کی تعداد 179 ہو گئی۔
مسلم لیگ ق کے 10 ارکان کے ووٹ مسترد ہونے کے بعد حمزہ شہباز کو تین ووٹوں کی برتری سے کامیاب قرار دیا گیا تھا جس کے بعد تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے بھیجے گئے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہیں کیے جائیں گے۔ اس وجہ سے حمزہ شہباز شریف کو ملنے والے 25 منحرف ارکان کے ووٹ منہا ہو جانے کے بعد سپریم کورٹ نے رن آف الیکشن کا حکم دیا تھا۔

مسلم لیگ ق کے 10 ارکان کے ووٹ مسترد ہونے کے بعد حمزہ شہباز کو تین ووٹوں کی برتری سے کامیاب قرار دیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: ڈی جی پی آر)

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے سپریم کورٹ کی رولنگ کو آئین کے برعکس قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کر رکھی ہے۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے حوالے سے بنچ میں شامل دو ججز نے بھی منحرف ارکان کے ووٹ گنتی میں شامل نہ کرنے کو دوبارہ آئین لکھنے کے مترادف قرار دیا تھا۔
سنیچر کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کی جانب سے حمزہ شہباز شریف کو ٹرسٹی وزیراعلٰی پنجاب بنانے کے بعد حکومتی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کی جانب سے جارحانہ رویہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

شیئر: