Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا وفاقی حکومت صوبہ پنجاب میں گورنر راج لگا سکتی ہے؟

وزیر داخلہ نے کہا کہ نے کہا کہ ’اگر پنجاب میں میرے داخلے پر پابندی لگی تو یہ گورنر راج کے نفاذ کا جواز ہوگا‘ (فوٹو:اے ایف پی)
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اعلان کیا ہے کہ صوبہ پنجاب میں گورنر راج لگانے کے لیے سمری پر کام شروع کر دیا ہے۔  
بدھ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اگر پنجاب میں میرے داخلے پر پابندی لگی تو یہ گورنر راج کے نفاذ کا جواز ہوگا۔ میں نے گورنر راج لگانے کے لیے سمری پر کام شروع کر دیا ہے۔‘
رانا ثنااللہ نے کہا کہ ’جس طرح کی گفتگو کل شام سے کی جا رہی ہے کہ ہم فلاں پر پابندی لگا دیں گے، فلاں پر یہ کر دیں گے تو اگر انہوں نے کوئی ایسی حرکت کی تو ان کو میرا یہ پیغام ہے کہ گورنر راج کی سمری وزارت داخلہ نے پیش کرنی ہے۔‘ 
گورنر راج لگانے کا طریقہ کار کیا ہے؟
پاکستان کے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد گورنر راج لگانے کا طریقہ کار تبدیل ہوچکا ہے۔ گورنر راج یا صوبے میں ایمرجنسی نافذ کرنے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 232 سے 235 تک وضاحت کی گئی ہے۔  
بنیادی طور پر گورنر راج کا مقصد صوبے کا نظام وفاق کے سپرد کرنا ہے تاہم اٹھارہویں ترمیم کے بعد گورنر راج کو متعلقہ صوبے کی اسمبلی سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ 
آئین کی شق 232 کے مطابق اگر ملک کی سلامتی جنگ یا کسی اندرونی اور بیرونی خدشے کے پیش نظر خطرے میں ہو اور اس کا سامنا صوبائی حکومت نہ کرسکتی ہو تو صدر مملکت ایمرجنسی نافذ کر کے گورنر راج لگا سکتے ہیں۔
تاہم اس کی شرط یہ ہے کہ متعلقہ اسمبلی اس کی سادہ اکثریت سے قرارداد کے ذریعے منظوری دے۔ اگر متعلقہ اسمبلی سے منظوری نہ ملے تو پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔ 

سابق اٹارنی جنرل انور منصور علی خان نے بتایا کہ ’وزیراعلٰی کی مرضی کے بغیر گورنر راج نافذ نہیں ہو سکتا۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

ہنگامی حالت کے نفاذ کے لیے صوبائی اسمبلی کی قرارداد صدر کو بھیجی جائے گی۔ اگر صدر خود ہنگامی حالت نافذ کرتا ہے تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے توثیق کے لیے پیش کرنے کا پابند ہوگا۔  
وفاق صوبے میں امن و امان کی صورتحال، صوبائی حکومت آئین کے مطاق نظام حکومت چلانے میں ناکامی یا معاشی ایمرجنسی کو جواز بنا کر گورنر راج لگانے کا اختیار ہے تاہم اس کے لیے متعلقہ صوبے کی پارلیمنٹ سے منظوری یا قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری مشروط ہے۔  

آئینی ماہرین کیا کہتے ہیں؟  

سابق اٹارنی جنرل انور منصور علی خان نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’جب تک صوبے کا وزیراعلٰی نہ کہے کہ صوبے کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ وہاں حکومت کی جا سکتی ہے۔ صوبے کا وزیراعلٰی اگر وزیراعظم سے گورنر راج لگانے کا نہ کہے وفاق صوبے میں گورنر راج نافذ نہیں کرسکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وزیراعلٰی کی اپنی اسمبلی سے بھی اس کی منظوری لینا ضروری ہے۔‘
سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’گورنر راج لگانے کے لیے آئین میں واضح ہے کہ وفاق صوبائی اسمبلی اور وزیراعلٰی کی مرضی کے بغیر گورنر راج نافذ نہیں کرسکتا۔‘  
آئینی اور قانون ماہر حامد خان سمجھتے ہیں کہ وفاق کے پاس کسی صوبے میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار موجود ہے لیکن اس کے لیے ٹھوس وجوہات ہونا بھی ضروری ہیں۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد گورنر راج کو متعلقہ صوبے کی اسمبلی سے مشروط کر دیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’اس وقت اگر وفاق پنجاب میں گورنر راج لگاتا ہے تو یہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل ہی ہوگا۔ معاشی ایمرجنسی کسی ایک صوبے میں لگ نہیں سکتی اس کے لیے پورے ملک میں معاشی ایمرجنسی ڈکلیئر کرنا ہوگی۔‘  
حامد خان کے بقول اس وقت وفاقی حکومت کے پاس کوئی ایسا جواز نہیں کہ گورنر راج نافذ کیا جائے۔
قانونی ماہر اور جے یو آئی ف کے سینیٹر کامران مرتضی نے بتایا کہ ’گورنر راج لگانے کے لیے وفاق کے پاس اختیار کہیں نہ کہیں موجود ہے لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں۔‘  
ان کا کہنا تھا کہ ‘گورنر راج کے نفاذ کے لیے صدر مملکت بھی بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس لیے وفاقی حکومت کو مشورہ ہے کہ اس پر سوچ سمجھ کر کام کرنا چاہیے اور وفاقی وزیر کی طرف سے اس قسم کا بیان آنا قبل از وقت ہے۔‘ 

شیئر: