Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب عمران خان لندن عدالت میں ہرجانے کا ہارا ہوا مقدمہ جیت گئے

ائین بوتھم 2005 کے انگلینڈ کے دورہ پاکستان کے موقع پر کمنٹری کے لیے پاکستان بھی آئے تھے (فائل فوٹو: کرک انفو)
یہ سنہ 1996 کی گرمیوں کی بات ہے۔ جولائی کا مہینہ تھا اور دنیا بھر کے میڈیا کی نظریں لندن کی ایک عدالت پر تھیں جہاں اپنے وقت کے معروف کرکٹرز ایک دلچسپ  قانونی جنگ لڑ رہے تھے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ سنہ 1994 میں پاکستان ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے انڈیا کے ممتاز جریدے انڈین ٹوڈے کو اس کے لندن بیورو میں ایک انٹرویو دیا۔
اس انٹرویو میں عمران خان نے انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان آئن بوتھم اور ان کے ساتھی کھلاڑی ایلن لیمب پر نسل پرست ہونے کا الزام عائد کیا اور انہیں ایک ’کم تعلیم یافتہ، نسل پرست اور کمتر سماجی حیثیت‘ رکھنے والا قرار دیا۔ 
اپنے انٹرویو میں انہوں نے آئن بوتھم پر دھوکہ باز ہونے کا بھی الزام عائد کیا۔  
انہی دنوں عمران خان نے اپنی سوانح حیات میں لکھا کہ آئن بوتھم نے کاؤنٹی کے ایک میچ کے دوران بوتل کے ڈھکن سے گیند کی سیم اکھاڑ کر ریورس سوئنگ کی تھی۔ 
اس تاریخی مقدمے کی یاد تازہ کرتے ہوئے پاکستان میں کھیلوں کے سینیئر صحافی عبدالماجد بھٹی کہتے ہیں کہ انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان آئن بوتھم ان دنوں برطانیہ میں اپنی شہرت کی عروج پر تھے اور ان کے پاکستان کے خلاف جذبات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔
 کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد بوتھم نے فلاحی کاموں کا آغاز کیا تھا جس کی وجہ سے وہ برطانیہ میں معتبر حیثیت اختیار کر گیے تھے۔
تاہم وہ 1992 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کے ہاتھوں شکست کا دکھ تازہ تھا اور وہ ہمیشہ اپنے تند و تیز بیانات کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہتے۔

اس مقدمے کے دوران عمران خان اپنی اہلیہ جمائمہ خان کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوتے رہے (فائل فوٹو: اے پی)

ماجد بھٹی کے مطابق ’برطانوی میڈیا پاکستان کے سابق کپتان کو سپورٹ نہیں کرتا تھا اور ہمیشہ پاکستانی کھلاڑیوں پر بال ٹیمپرنگ جیسے الزامات لگائے جاتے تھے۔‘  
’دنیا میں اس وقت چار بڑے آل راؤنڈرز کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا۔ ان میں عمران خان، آئن بوتھم کے علاوہ انڈیا کے کپل دیو اور رچرڈ ہیڈلی شامل تھے۔‘  
آئن بوتھم جو پاکستانی کھلاڑیوں اور پاکستان میں کرکٹ کے حوالے سے کافی متنازع بیانات بھی دیتے رہتے تھے۔
پاکستانی گیند بازوں کی جانب سے نئی گیند کو ریورس سوِنگ کرنے پر بھی حیرت زدہ ہوتے اور بال ٹمپرنگ کے الزامات لگاتے رہتے۔  
پاکستان کے ایک دورے کے بعد آئن بوتھم نے پاکستان کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان ایک ایسی جگہ ہے جہاں اپنی ساس کو تمام اخراجات اٹھا کر دو ہفتوں کے لیے بھیج دیا جائے۔‘
لیکن جب 1994 میں انڈین جریدے میں ائین بوتھم اور ایلن لیمب کے متعلق عمران خان کے الزامات سامنے آئے تو ائین بوتھم برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے عمران خان کے خلاف برطانیہ کی عدالت میں مقدمہ درج کرا دیا۔  
عمران خان نے عدالت میں انٹرویو کی تردید کی اور اسے سیاق و سباق سے ہٹ کر قرار دیا۔
انہوں نے بال ٹیمپرنگ پر سابق کھلاڑیوں کو گواہ کے طور پر بھی پیش کیا اور کچھ ویڈیوز بھی سامنے لانے کا دعویٰ کیا۔ 

ایلن لیمب نے اس مقدمے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اس فیصلے کے بعد میں دیوالیہ ہوگیا ہوں۔‘ (فائل فوٹو: ایڈِس)

عمران خان نے اپنی سوانح عمری میں اس مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ان کے وکیل عدالتی کارروائی سے کچھ زیادہ پُرامید نہیں تھے۔
’انہیں لگتا تھا کہ آئن بوتھم برطانیہ کے ہیرو ہیں اور مقدمہ کا فیصلہ ان کے حق میں جا سکتا ہے۔‘ 
 اس مقدمے کی کارروائی اڑھائی ہفتے چلتی رہی اور اس دوران عمران خان اپنی اہلیہ جمائمہ خان کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوتے رہے۔
اس عدالتی کارروائی کے دوران ان کے قریبی دوست مرحوم نعیم الحق بھی ان کے ساتھ عدالت میں موجود ہوتے۔  
بالآخر عدالت نے عمران خان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے آئن بوتھم اور ایلن لیمب پر 5 لاکھ پاونڈز کا جرمانہ عائد کر دیا۔ عدالت کی 12 رکنی جیوری نے فیصلہ 10 اور 2 کے تناسب سے دیا۔ 
اس فیصلے سے برطانوی میڈیا اور انگلش کھلاڑی کافی ناخوش اور حیران ہو گئے کیونکہ آئن بوتھم کو یقین تھا کہ مقدمے کا فیصلہ ان کے ہی حق میں آئے گا لیکن دنیائے کرکٹ کی تاریخ کا سب سے مہنگا ہرجانے کا دعویٰ وہ ہار گئے ۔  
ایلن لیمب نے اس مقدمے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اس فیصلے کے بعد میں دیوالیہ ہوگیا ہوں۔‘ 

‘ائین بوتھم ہمیشہ عمران خان پر بال کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام لگاتے۔‘ (فائل فوٹو: کرک انفو)

ماجد بھٹی اس دلچسپ تاریخی عدالتی لڑائی میں کامیابی کو عمران خان کے روایتی جارحانہ پن سے تعبیر کرتے ہیں۔
 ’عمران خان نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی اور کاؤنٹی کرکٹ کھیلی ہے، اس لیے وہ وہاں کے مزاج کو سمجھ چکے تھے اور انہوں نے عدالت میں بھی وہی جارحانہ انداز اپنایا جو وہ میدان میں دکھاتے تھے۔‘ 
 جب برطانوی عدالت نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کو ہرجانے کے کیس سے بری کرتے ہوئے انگلش کرکٹرز آئن بوتھم اور ایلن لیمب کو 5 لاکھ پاؤنڈز کا جرمانہ کیا تو یہ نہ صرف مقدمے کے فریقین بلکہ ہر اس شخص کے لیے حیران کن تھا جو اس کے بارے میں کچھ معلومات رکھتا تھا۔
سینئیر تجزیہ کار اور کرکٹ کمنٹیٹر مرزا اقبال بیگ کے مطابق ’عمران خان، آئن بوتھم اور ایلن لیمب کاونٹی کرکٹ سے ہی روایتی حریف بن گئے تھے۔ اور یہ مخاصمت اس وقت عروج پر پہنچی جب 1992 کے ورلڈ کپ میں انگلینڈ کو پاکستان کے ہاتھوں شکست ہوئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آئن بوتھم ہمیشہ عمران خان کی ریورس سوِنگ کو متنازع بناتے اور ان پر بال کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام لگاتے۔‘
مرزا اقبال بیگ بتاتے ہیں کہ ’بوتھم 2005 کے انگلینڈ کے دورہ پاکستان کے موقع پر کمنٹری کے لیے پاکستان بھی آئے تھے۔ اس دوران انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا اور عمران خان کا ذکر کرتے رہے۔‘
’ان کی عمران خان کے ساتھ اس وقت ملاقات ہوئی تھی یا نہیں اس کی تصدیق نہیں ہوئی لیکن دونوں کھلاڑی جو کھیل کے میدان میں روایتی حریف سمجھے جاتے تھے، بعد ازاں دوست بن گئے۔‘

شیئر: