Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پہلے شکار پر پابندی اور اب خراب موسم، مچھیروں کے چولہے ٹھنڈے

پاکستان کا ساحلی شہر کراچی یوں تو اپنے دامن میں معیشت کے کئی شعبوں کو سمائے بیٹھا ہے، لیکن اس شہر میں بسنے والے ماہی گیر سمندر کی لہروں کا سینہ چیر کر جہاں اپنے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے ہیں وہیں ملکی معیشت میں بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
آبی حیات کی افزائش نسل کے ایام کے دوران عائد پابندی کے بعد ماہی گیر اگست کے مہینے میں پر امید تھے کہ شکار کی اجازت ملنے پر دو ماہ کی تنگی دور کرسکیں گے لیکن موسم کی خرابی اور سمندر کی تیز لہریں ان کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
کراچی کورنگی ڈھائی نمبر کے رہائشی 36 سالہ احمد کبیر بچپن سے ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ماہی گیری کے شعبے میں کام کرنا آسان نہیں ہے، دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے مہینہ بھر سمندر میں رہنا پڑتا ہے۔
’ہر سال کی طرح اس سال بھی جون اور جولائی میں سمندر میں شکار پر پابندی لگائی گئی، چھوٹی بڑی لانچوں کو مکمل طور پر بند رکھا گیا اور اس پر کام کرنے والے میری طرح ہزاروں لوگ بیروزگار ہوئے۔ دو مہینے مشکل کے گزارے، اب اگست میں شکار کھلنے پر کام ملے گا تو حالات بہتر ہوجائیں گے لیکن مسلسل موسم کی خرابی کی وجہ سے اب تک شکار کے لیے نہیں جا سکے۔‘
احمد کبیر کا کہنا ہے کہ ماہی گیری کے شعبے میں مزدور کے لیے خاطر خواہ مواقع تو نہیں ہوتے لیکن بچپن سے کام کرنے کی وجہ سے ایک ترتیب بن چکی ہے اور اتنی آمدنی ہو جاتی ہے جس میں گھر کا گزر بسر ہو جائے۔
’کرائے کا گھر ہے۔ تین بچوں کا ساتھ ہے اس کے علاوہ میں اپنے گھر کا واحد کفیل ہوں تو گھر کے 14 افراد کی ذمہ داری مجھ پر ہی ہے۔ دو مہینے کام نہیں ہوا تو قرض کافی ہوگیا ہے۔ امید تھی کہ ایک چکر اس مہینے میں لگ جائے گا تو کچھ پیسے بن جائیں گے لیکن ابھی تک کوئی صورتحال بنتی نظر نہیں آ رہی۔‘

جون اور جولائی میں سمندری حیات کے شکار پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

آبی حیات کے ماہرین کے مطابق ہر سال جون اور جولائی کے دو ماہ چینلز اور کھلے سمندر میں شکار کرنے پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ یہ دراصل مچھلی، جھینگے اور کیکٹرے سمیت دیگر آبی حیات کی افزائش نسل کے مہینے ہوتے ہیں۔
اس دو مہینے کی پابندی سے جہاں آبی حیات کی نسل کی افزائش ہوتی ہے وہیں دو ماہ شکار نہ ہونے سے سمندر میں موجود آبی حیات کا سائز اور وزن بھی بڑھ جاتا ہے۔  
احمد کبیر نے بتایا کہ ایک لانچ میں 15 سے 18 افراد شکار کے لیے جاتے ہیں اور اپنے ساتھ ایک مہینے کا راشن لے کر جاتے ہیں۔
’شکار کے لیے سمندر کے کنارے سے جال ڈالتے ہیں۔ کبھی کریک کے قریب ہی شکار مل جاتا ہے تو کبھی بلوچستان، ایران اور انڈیا کی سرحد تک شکار کے لیے جانا پڑتا ہے۔ ایک چکر میں ایک مزدور کو 17 سے 20 ہزار روپے تک کی بچت ہوجاتی ہے۔ کبھی اچھا شکار لگتا ہے تو پیسے زیادہ بھی مل جاتے ہیں اور کبھی شکار اچھا نہ لگے تو اس سے بھی کم پیسے ملتے ہیں۔‘ 
پاکستان فشر فورک فورم کے ترجمان کمال شاہ کا کہنا ہے کہ جون اور جولائی میں بڑی تعداد میں ماہی گیر بے روزگار ہوجاتے ہیں۔ یہ دو مہینے ان کے لیے بہت ہی مشکل ہوتے ہیں۔
’ماہی گیروں کو آج بھی بازار میں ان کی محنت کے پیسے نہیں ملتے۔ آبی حیات کی خریداری کرنے والی کمپنیاں ماہی گیروں سے مچھلی اور جھینگے سمیت دیگر سمندری حیات پرانے داموں پر ہی خریدتی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں شکار پر لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ رواں سال سیزن کے آغاز کے مہینے اگست میں بارشوں کا سامنا ہے جس سے ماہی گیر خوف زدہ بھی ہیں۔

ماہی گیروں کے مطابق انہیں محنت کے حساب سے معاوضہ نہیں ملتا۔ فوٹو: اے ایف پی

’اگر موسم ٹھیک نہیں ہوا تو آنے والے دنوں میں کھلے سمندر میں ماہی گیر شکار کے لیے نہیں جا سکیں گے۔ ایسی صورتحال میں ماہی گیروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘ 
واضح رہے کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے رواں ماہ کے دوسرے ہفتے میں سندھ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہلکی اور تیز بارشوں کی پیش گوئی کرتے ہوئے الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ 
فشر فورک فورم کے ترجمان کمال شاہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں ماہی گیروں کو ریلیف فراہم کیا جائے تاکہ وہ سیزن کے شروع ہونے تک اپنا گزر بسر کرسکیں۔ 

شیئر: