Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ارشد ندیم، جنہوں نے اس مرتبہ دل ہی نہیں میڈل بھی جیت لیا

اس کامیابی کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس ایونٹ میں ارشد نے بغیر کسی کوچ کے حصہ لیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
آج سے ٹھیک ایک برس قبل جب ٹوکیو اولمپکس میں پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم نے جیولین تھرو کے مقابلے میں حصہ لیا تھا تو وہ فائنل راؤنڈ میں پانچویں پوزیشن حاصل کر سکے تھے۔
ارشد گو کہ میڈل تو حاصل نہیں کر پائے تھے مگر پھر بھی انہوں نے پاکستان اور اس سے باہر بہت سے لوگوں کےدل ضرور جیتے تھے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ میاں چنوں کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے ارشد ندیم کےلیے سہولیات کے بغیر اولمپکس جیسے بڑے عالمی پلیٹ فارم پر پاکستان کی نمائندگی کرنا اور پھر پانچویں نمبر پر آنا ہی کسی بڑی کامیابی سے ہرگز کم نہیں تھا۔
تبھی تو جب وہ وطن واپس لوٹے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ جیسے یہ سب دیگر بہت سے لوگوں کے لیے ناقابل یقین تھا ویسے ہی ارشد کے والد جو کہ راج مستری کا کام کرتے تھے۔ ان کی خوشی بھی دیدنی تھی۔
جب مختلف میڈیا رپورٹرز ان سے ارشد کے بارے میں پوچھ رہے تھے تب بار بار وہ اپنے محنتی بیٹے کی اس کامیابی پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے اور ساتھ اس کی پوری کہانی بھی بیان کر رہے تھے۔
وہ بتا رہے تھے کہ کیسے ارشد نے شروع سے سہولیات نہ ہونے کے باوجود بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔ اولمپکس میں شرکت سے قبل ارشد کو کورونا ہوگیا تھا لیکن اس کے باوجود بھی اس نے کیسے خود کو مضبوط بنا کر اولمپکس میں شرکت کی تھی۔
جہاں گزشتہ برس اس بات کی خوشی محسوس کی گئی کہ پاکستان کے اس نوجوان نے ملک کا نام روشن کیا تھا، وہاں اس امر پر بھی خوب بات ہوئی کہ اگر ارشد جیسے باہمت اور ٹیلینٹ سے بھرپور نوجوانوں کو حکومتی وسائل میسر آجائیں تو وہ اس سے بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔

جب فائنل راؤنڈ شروع ہوا تو دیکھا گیا کہ ارشد نے اپنی کہنی پر ٹیپ چڑھائی ہوئی تھی اور وہ کچھ تکلیف میں بھی نظر آرہے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

اس ضمن میں ارشد ندیم کا موازنہ ٹوکیو اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے نیرج چوپڑا سے بھی کیا گیا کہ کیسے ان کو بھارتی سرکار کی طرف سے کوچز سے لے کر ہر سطح پر بہترین سہولیات فراہم کی گئیں تھیں۔
مگر اس کے بعد ارشد ندیم منظرعام سے غائب ہوگئے۔ پورا سال بیت گیا، نہ میڈیا کو یاد آیا کہ پتا کیا جائے کہ ارشد کے حالات میں کوئی بدلاؤ آیا تھا یا نہیں اور نہ ہی کسی حکومتی عہدیدار نے کبھی اس حوالے سے کوئی بات کی۔ حتیٰ کہ عام لوگوں کے ذہنوں میں سے بھی ان کا نام نکل ہی گیا تھا۔ جو پھر سے یاد تب آیا جب برطانیہ میں ہونے والی کامن ویلتھ گیمز کا آغاز ہوا اور ایک دفعہ پھر میڈیا پر ارشد ندیم کا تذکرہ شروع ہوا۔
مگر ارشد کو تو معلوم تھا کہ انہوں نے گزشتہ برس انجری کی وجہ سے کتنا مشکل وقت گزارا تھا اور آگے انہوں نے کن مقابلوں میں حصہ لینا تھا۔
ان کو یہ بھی بخوبی اندازہ تھا کہ گزشتہ برس ہونے والے اولمپکس اور گزشتہ ماہ ہونے والی انٹرنیشنل ورلڈ اتھلیٹکس چیمپئن شپ میں اچھی کارکردگی دکھانے کے باوجود بھی کامن ویلتھ گیمز میں انہیں بہت زیادہ محنت درکار ہوگی۔ کیونکہ یہاں بھی ان کا سب سے سخت مقابلہ گزشتہ دونوں ایونٹ جیتنے والے انڈین ایتھلیٹ نیرج چوپڑا سے ہی ہونا تھا۔
گو کہ ارشد اور نیرج ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست بھی ہیں اور ان کا آپس میں بہت اچھا تعلق ہے جس کا اظہار وقتاً فوقتاً ہمیں دیکھنے کو بھی ملتا رہتا ہے مگر مقابلہ تو پھر مقابلہ ہی ہوتا ہے۔
اس مرتبہ محنت کے ساتھ شاید قسمت نے بھی ارشد کی یاوری کی اور کامن ویلتھ گیمز کے فائنل راؤنڈ سے قبل نیرج چوپڑا انجری کا شکار ہو کر ایونٹ سے باہر ہوگئے۔ لیکن انجری کا شکار ارشد بھی ہوئے۔ ان کی  کہنی اور گھنٹے میں تکلیف کی وجہ سے یہ خدشہ تھا کہ وہ بھی شاید فائنل راؤنڈ میں حصہ نہ لے پائیں اور اگر حصہ لیا بھی تو شاید نیرج کی عدم دستیابی کے باوجود بھی بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر پائیں۔

ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست بھی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ ہمت مرداں اور مدد خدا۔ پہلے تو یہ خبر آئی کہ ارشد فائنل راؤنڈ میں حصہ لیں گے۔ پھر جب فائنل راؤنڈ شروع ہوا تو دیکھا گیا کہ ارشد نے اپنی کہنی پر ٹیپ چڑھائی ہوئی تھی اور وہ کچھ تکلیف میں بھی نظر آرہے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کی جیولین تھرو کی پہلی چار کوششیں بھی بہت اچھی نہیں گئی تھیں۔ مگر ارشد نے جب پانچویں بار بھاگ کر نیزہ پھینکا تو وہ 90 میٹر کے نشان کے پار جا گرا۔ اس کوشش میں ارشد کا سکور 90.18 تھا جو نہ صرف کامن ویلتھ گیمز میں ایک ریکارڈ تھا بلکہ ارشد کا اب تک اپنا بھی سب سے زیادہ انفرادی ریکارڈ تھا۔
ارشد کی فتح کے اعلان کے ساتھ وہ وہاں سجدہ ریز ہوئے اور طلائی تمغے کا حق دار ٹھہرے۔
ان کی اس کامیابی کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس ایونٹ میں ارشد نے بغیر کسی کوچ کے حصہ لیا تھا۔ میڈل حاصل کرتے ہوئے ان کے چہرے پر خوشی دیدنی تھی۔ انہوں نے اپنے اس میڈل کو پاکستان کی یوم آزادی سے قبل اپنی قوم کے لیے ایک تحفہ قرار دیا۔ جبکہ ان کے والد نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہاں اس پر بے پناہ خوشی کا اظہار کیا وہاں یہ بھی کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ ان کا بیٹا بس ان کی طرح راج مستری نہ بنے۔
گو کہ بیٹے کے قومی ہیرو بننے کے بعد ان کے والد کا یہ خدشہ بظاہر درست تو نہیں لگتا مگر پھر بھی ہمارے ہاں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد بھی کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں سے وابستہ افراد کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ اس لیے کوئی بعید نہیں کہ ارشد ندیم بھی مشکلات میں گھر جائیں۔

ارشد نے اپنے اس میڈل کو پاکستان کی یوم آزادی سے قبل اپنی قوم کے لیے ایک تحفہ قرار دیا (فوٹو: اے ایف پی)

ارباب اختیار سے یہ التماس ضرور ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنے اس ہیرو کا خیال ضرور رکھیں گے جس نے محض اپنی محنت کے بل بوتے پر ایسی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس نے ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا سمیت دیگر ممالک کے باسیوں کو بھی ارشد ندیم کا گرویدہ بنا لیا ہے۔
اس کے ساتھ ارشد ندیم نے ان لوگوں کو بھی خوش کر دیا ہے جنہیں گزشتہ برس ان سے یہ شکوہ تھا کہ انہوں نے اولمپکس میں دل تو جیت لیے مگر میڈل نہیں جیت پائے تھے۔

شیئر: