Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلسطینی غزہ میں ایندھن کے لیے پلاسٹک کو ری سائیکل کرنے پر مجبور

ڈیزل کے حصول کے لیے غیر منظم صنعت سے ماحولیاتی تباہی کا خدشہ ہے۔ فوٹو عرب نیوز
مشرق وسطیٰ کے غریب ترین علاقے میں سے ایک غزہ میں بسنے والے فلسطینی ایندھن کے لیے زیادہ اخراجات کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور متبادل کے طور پر استعمال شدہ پلاسٹک کو ری سائیکل کرتے ہوئے سستا ڈیزل حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اے ایف پی نیوز ایجنسی کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے پندرہ برسوں سے کی گئی ناکہ بندی کے باعث یہاں کے باشندوں کو اس علاقے میں یہ ایک اقتصادی حل  نظر آیاہے جوماحولیاتی اور صحت کے لیے سنگین خطرات کا سبب ہے۔
زنگ آلود دھاتی مشینری اور ایندھن کے کنٹینرز کے سامنے کھڑے فلسطنی شہری محمود الکفرنہ نے بتایا کہ وہ اور ان کے بھائی کس طرح غزہ میں پلاسٹک کی ری سائیکلنگ کا کام کرنے پر مجبور ہیں۔
شمالی غزہ کے علاقے جبالیا کے نواح میں اس بھٹی پر کام کرتےہوئے 25 سالہ فلسطینی شہری نے بتایا کہ 2018 میں ہم چند دوستوں نے انٹرنیٹ پر تلاش کر کے  اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تجربات شروع کیے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ کچرے سے ایندھن  کشید کرنے میں ہم چند بار ناکام بھی ہوئے تا ہم  آٹھ ماہ کی مشقت کے بعد ایندھن نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔
یہاں موجود سیٹ اپ میں کچھ ٹینکوں کو پائپوں کے ذریعے جوڑا گیا ہے جن میں باہر سے پلاسٹک کے ٹکڑے ان میں انڈیلے جاتے ہیں۔
مٹی سے ڈھکے ایک بڑے ٹینک کے نیچے بھٹی میں لکڑی کو جلانے کے ساتھ  یہ خاص عمل شروع ہوتا ہے۔

استعمال شدہ پلاسٹک سے سستا ڈیزل حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فوٹو عرب نیوز

ٹینک میں تقریبا ڈیڑھ  ٹن  کٹا ہوا پلاسٹک موجود ہوتاہے، جب پلاسٹک آگ کی حرارت سے  پگھلتا ہے تو بخارات ایک پائپ کے ذریعے پانی کے ٹینک میں بہتے ہیں جہاں یہ محلول ٹھنڈا ہو کر ایندھن کے طور پر کنٹینرز میں ٹپکتے ہیں اور بعدازاں ایندھن کی ضرورت پوری کرنے کے طور پریہ محلول فروخت  کیا جاتا ہے۔
مٹی سے بنائی گئی اس بھٹی کے اوپر پھیلے ہوئے کئی پائپوں اور پلاسٹک کو تھامے ہوئے اس ٹینک سے سیاہی مائل دھواں نکلتا ہے۔
کٹے ہوئے پلاسٹک کے تھیلے پگھلانے کاعمل مکمل کرنے کے لیے صرف چند کارکن  ہی چہرے کے ماسک اور دستانے کا استعمال کرتے ہیں ان کے لباس بھی سیاہ داغوں سے اٹے پڑے ہیں۔
یہاں موجودایک کارکن نے بتایا کہ چونکہ یہاں قریب رہائشی عمارتیں نہیں ہیں اس لیے کسی کو صحت کے مسائل کا سامنا نہیں جب کہ ہم کام کے دوران حفاظتی طریقہ کار پر عمل کرتے ہیں۔
کچرے سے ایندھن بنانے کے اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے محمود نے بتایا کہ وہ  جلد ہی اپنے اس یونٹ کو  لکڑیوں سے جلائی جانے والی آگ کی بجائے بجلی سے چلنے والے محفوظ ٹینک میں اپ گریڈ کریں گے۔

زہریلی گیسیں انسانوں کی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ فوٹو عرب نیوز

غزہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے ماحولیات و ترقی کے ڈائریکٹر احمد حلیس کو اس غیر منظم صنعت سے ماحولیاتی تباہی کا خدشہ ہے۔
احمد حلیس نے بتایا ہے کہ ایندھن کے حصول کے لیے یہ طریقہ کار یہاں موجود کارکنوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے، بنیادی طور پر اس سے اٹھنے والے زہریلے دھوئیں میں جب یہ سانس لیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق پلاسٹک کو جلانے سے ڈائی آکسینزاور دیگر زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں جو نباتات، حیوانات اور انسانوں کی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔
احمد حلیس نے پلاسٹک کو  اس طرح جلانے میں پیٹرولیم ہائیڈرو کاربن کے خطرے کا بھی انکشاف کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس کام کے لیے استعمال کیا جانے والا یہ ٹینک ایک طرح کا ٹائم بم ہے جو کہ گرمی  کے باعث بھی  پھٹ سکتا ہے۔
 

شیئر: