Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسان کو چاند پر بھیجنے کا منصوبہ، ناسا دوسری بار کوشش کرے گا

ناسا کے حکام کا کہنا ہے کہ تکنیکی مسائل کو حل کر لیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ کے خلائی ادارے ناسا پہلی کوشش کی ناکامی کے بعد سنیچر کو پھر سے آرٹیمس مشن کے تحت جدید راکٹ خلا میں بھیجنے کی کوشش کرے گا۔
ناسا کے اب تک کے ’سب سے طاقتور راکٹ‘ کی پرواز پیر کو تکنیکی مسائل کی بنا پر نہیں ہو سکی تھی۔
 برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سنیچر کو ہونے والی اڑان کے امکانات کو بھی موسم کے حوالے سے رپورٹس نے دھندلا دیا ہے اور پیش گوئی میں کہا گیا ہے کہ اس روز سازگار موسم کے امکانات صرف 40 فیصد تک ہو سکتے ہیں جبکہ ادارے کا بھی کہنا ہے کہ ابھی کچھ تکنیکی امور حل ہونا باقی ہیں۔
پیر کو راکٹ کے اڑان کے لیے گنی جانے والی گنتی اختتام کو پہنچی تو حکام نے میڈیا کو بتایا کہ پرواز روک دی گئی ہے تاہم یہاں تک کا مرحلہ بھی بہت مفید ثابت ہوا ہے اور اگلی کوشش میں ان مشکلات کو حل کر لیا جائے گا جو اس بار سامنے آئیں۔
اور یوں پرواز کی کوشش ایک ریہرسل ہی ثابت ہوئی اس امید کے ساتھ کہ اگلی کوشش کامیاب ہو گی۔
اس بار ناسا کے حکام کا کہنا ہے کہ سپیس لانچ سسٹم کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کی گئی ہے اور اگر سب ٹھیک رہا تو فلوریڈا میں کینیڈی سپیس سینٹر سے راکٹ سنیچر کی دوپہر کو تقریباً سوا دو بجے پرواز کر جائے گا۔
اس مشن کا طویل عرصہ سے انتظار کیا جا رہا تھا جس میں راکٹ چاند اور مریخ تک پہنچے گا۔
رپورٹس کے مطابق یہ منصوبہ 1960 اور 70 کی دہائی کے اپالو لونر کا اگلا مرحلہ ہے جب خلائی شٹلز بھیجی گئیں اور خلائی سٹیشنز بنائے گئے تھے۔

مشن کے تحت راکٹ چاند اور مریخ تک پہنچے گا (فوٹو: روئٹرز)

 پیر کو پرواز کی ناکامی میں ایک وجہ یہ بھی شامل تھی کہ انجن اس درجہ حرارت تک پہنچنے میں ناکام رہے تھے جو اڑان بھرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے جس سے الٹی گنتی رک گئی۔
مشن کے مینیجرز نے بتایا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ انجن میں ایک سنسر خراب تھا جس کی وجہ سے انجن کی کولنگ کا مسئلہ پیدا ہوا۔
اب سنیچر کو ہونے والے لانچ کے حوالے سے مینیجرز نے اس کا حل یوں نکالا ہے کہ کاؤنٹ ڈاؤن سے 30 منٹ قبل انجن کا کولنگ پراسس شروع کر دیا جائے گا۔
خیال رہے پیر کو ہونے والی پرواز کے موقع پر امریکی عوام بھی بہت پرجوش تھے اور یہ منظر دیکھنے کے لیے دور دور سے پہنچے تھے، تاہم ناکامی پر انہوں نے مایوسی سے زیادہ اس امید کا اظہار کیا تھا کہ اگلی بار وہ یہ نظارہ کر لیں گے۔

شیئر: