Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال، ہائیکورٹ کا اخراجات کی تفصیل عام کرنے کا حکم

چیف جسٹس نے کہا ’اگر ڈیفنس کا ہیلی کاپٹر کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہوا ہے تو معلومات جاننا شہری کا حق ہے۔‘ فائل فوٹو
اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کو سرکاری ہیلی کاپٹر میں اسلام آباد لانے کے اخراجات کی تفصیل فراہم کی جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے وفاق کی اپیل خارج کر دی اور حکم دیا کہ ’حکومت سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال کے اخراجات کی تفصیل شہری کو فراہم کرے۔‘
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کو ہیلی کاپٹر پر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات اور انٹرویو کے لیے اسلام آباد لایا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’شہری جاننا چاہتا ہے کہ وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر کہاں کہاں استعمال ہوا تھا۔‘
ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی کا موقف تھا کہ ’یہ معلومات دفاع سے متعلق ہیں، اس لیے شہری کو فراہم نہیں کر سکتے۔‘
چیف جسٹس نے کہا ’جو معلومات مانگی جا رہی ہیں یہ دفاع سے متعلق نہیں ہیں۔ پبلک فنڈ سے متعلق معلومات ایک شہری مانگ رہا ہے جو اس کا حق ہے۔‘
اگر ڈیفنس کا ہیلی کاپٹر کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہوا ہے تو معلومات جاننا شہری کا حق ہے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’اگر میں ہیلی کاپٹر استعمال کر رہا ہوں تو وہ کیسے دفاع سے متعلق ہو سکتا ہے۔ شہری کو جاننے کا حق ہے کہ اس کے پیسے کہاں لگ رہے ہیں؟‘
انہوں نے کہا کہ ’سرکاری ہیلی کاپٹر اگر کسی کے فیملی ممبر کے لیے بھیج رہے ہیں تو یہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہے۔ وزارت دفاع کا ہیلی کاپٹر اگر دفاع کے علاوہ کسی مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہ اختیار کا غلط استعمال ہے۔‘
آرٹیکل 19 اے میں ہر شہری کو جاننے کا حق ہے کہ اس کے ٹیکس کا پیسہ کہاں لگ رہا ہے۔ اگر ہیلی کاپٹر کا غلط استعمال ہوا ہے تو ذمہ داران عوام کو جواب دہ ہیں۔ ‘
’یہ پبلک آفس ہولڈرز کے احتساب کا مؤثر طریقہ ہے۔‘
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ’حکومت آئندہ ایسی پٹیشنز عدالت کے سامنے نہ لائے۔ آپ عوام کو جواب دہ ہیں۔‘

شیئر: