Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترکی میں شامی مہاجرین کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ

لاکھوں شامیوں کو ملک واپسی کا معاملہ ملکی سیاست کا اہم موضوع ہے۔ فوٹو عرب نیوز
شامی پناہ گزین جن کا  کبھی  ترکی میں کھلی بانہوں سے خیرمقدم کیا جاتا تھا اب اپنے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافے کے باعث ترکی میں خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والےماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے ایسے واقعات کو  ترکی میں آئندہ  سال ہونے والےانتخابات میں سیاسی فائدہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

حزب اختلاف نے شامیوں کی بڑھتی ناراضگی کا فائدہ اٹھایا ہے۔ فوٹو بی بی سی

شامی پناہ گزین   نوجوان فارس علالی اس نفرت انگیز صورتحال کا  تازہ ترین شکار ہے جسے حال ہی میں جنوبی ترکی کے صوبے حطائے میں چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا گیا۔
17 سالہ فارس کے والد کا 2011 میں شامی تنازعے کے دوران انتقال ہو گیا جس کے بعد  فارس ترکی کی ایک یونیورسٹی میں طب کی تعلیم حاصل کرکے  ڈاکٹر بننے کا عزم رکھتا تھا ، اب اس کی لاش  شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں منتقل کی جائے گی۔
شامی نوجوان یہاں ایک مقامی فیکٹری میں پارٹ ٹائم کام کرتا تھا جہاں مبینہ طور پر کسی خاتون ورکر سے اختلاف کے بعد انتقامی حملے میں مارا گیا۔
واضح رہے کہ ترکی تقریباً 3.6 ملین رجسٹرڈ شامی مہاجرین کا مرکز بنا ہوا  ہے جو دنیا کی سب سے بڑی پناہ گزین آبادی  کی آماجگاہ ہے۔

شامی پناہ گزینوں کا  ترکی میں کھلی بانہوں سے خیرمقدم کیا جاتا تھا۔  فوٹو عرب نیوز

ترکی میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر نسلی بنیاد پر حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس نے غیر ملکیوں کے خلاف معاندانہ رویوں کو بھی ہوا دی ہے۔
ان دنوں ملک کی معاشی بدحالی نے سرکاری افراط زر کی شرح 80.2 فیصد اور غیر سرکاری طور پر 181 فیصد سے زیادہ دیکھی ہے۔
ترکی کے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے تناظر میں اب 10 لاکھ  شامیوں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کا معاملہ ملکی سیاست میں ایک گرما گرم موضوع بن گیا ہے۔
حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ دائیں بازو کی حزب اختلاف کی شخصیات نے شامیوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے کا وعدہ کرکے بڑھتی ہوئی ناراضگی کا فائدہ اٹھایا ہے۔

اشرافیہ حلقوں کی جانب سے ایسی اشتعال انگیزی میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ فوٹو عرب نیوز

ترکی میں شامی مہاجرین پر پرتشدد حملوں سے متعلق کوئی سرکاری اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں لیکن جون میں دو نوجوان شامی باشندوں سلطان عبدالباسط جبنی اورشریف خالد الاحمد کو مبینہ طور پر استنبول میں الگ الگ واقعات میں مشتعل ترک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔
30 مئی کو70سالہ شامی خاتون لیلیٰ محمد کو جنوب مشرقی صوبے میں ایک شخص نے تھپڑ مارے جب کہ حال ہی میں ایک 17 سالہ شامی طالب علم کو مشتعل ترک ہجوم نے زبانی بدسلوکی کا نشانہ بنایا۔
انقرہ میں قائم ایک تھنک ٹینک کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ترکی میں بعض اشرافیہ کے حلقوں کی جانب سے اس طرح کی  اشتعال انگیزی میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
 

شیئر: