Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی بینکوں کے مارگیج بڑھ کر 638 بلین ریال تک پہنچ گئے

کورونا وبا نے سعودی عرب میں رئیل سٹیٹ سیکٹر کو متاثر کیا ہے( فوٹو عرب نیوز)
سعودی وزیر بلدیات، دیہی اموراور ہاؤسنگ ماجد الحقیل نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے تجارتی بینکوں کی جانب سے ریٹیل اور کارپوریٹ کلائنٹس کو فراہم کیے گئے مارگیج کے قرضے2017 کی دوسری سہ ماہی میں211 بلین ریال سے بڑھ کر 638 بلین ریال تک پہنچ گئے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق ریاض میں یورومنی سعودی عرب کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  وزارت جی ڈی پی میں مارگیج کی شراکت کے معاملے میں مملکت کو دنیا میں سب سے اوپر دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ماجد الحقیل نے کہا ہے کہ ’ مجھے خوشی ہے کہ مارگیج کی مقداری تعداد 2017 میں 211 بلین ریال سے بڑھ کر اب 638 بلین ریال  ہو گئی ہے۔ ہم جی ڈی پی میں مارگیج کی شراکت کے معاملے میں سعودی عرب کو دنیا میں سرفہرست لانے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔
سعودی وزیر نے مزید کہا کہ ’ مارگیج  ہاؤسنگ حکومتوں کو کم ملوث کرتی ہے لیکن ہم سعودی بینیفشریز کی ضروریات کی فراہمی کو ہوشیاری سے جاری رکھتے ہیں‘۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ سعودی ریئل سٹیٹ ری فنانس کمپنی مملکت کے رئیل سٹیٹ سیکٹر میں لیکویڈیٹی اورشفافیت کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
سعودی وزیر نے مزید کہا کہ ’ ایس آر سی 2017 میں قائم کی گئی تھی اور ہمیں اس کی ساکھ کو بڑھانا تھا۔ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ موڈی جیسی درجہ بندی کرنے والی ایجنسیوں کی طرف سے بڑی درجہ بندی کی جائے۔ اب ہم بین الاقوامی ہونے جا رہے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ 2023 کے پہلے نصف میں یہ عالمی کمپنی بن جائے گی۔ ہم فی الحال وزارت خزانہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں‘۔
ستمبر کے شروع میں ایس آر سی کے اثاثے اس وقت 20 بلین ریال  بلین تک پہنچ گئے جب اس نے مصرف الإنماء کے ساتھ اپنے ایک رئیل سٹیٹ فنانسنگ پورٹ فولیو کے حصول کے لیے ایک معاہدہ مکمل کیا۔
 ماجد الحقیل نے کہا کہ کورونا کی وبا نے سعودی عرب میں رئیل سٹیٹ سیکٹر کو منفی طور پر متاثر کیا تاہم مملکت نے سپلائی چین کے مسائل کو مؤثر طریقے سے نمٹا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ کورونا کی وبا نے سعودی عرب اور دنیا کو متاثر کیا لیکن، حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ سعودی عرب کو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں تیزی سے مواد ملے کیونکہ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اس حوالے سے بہت سارے معاہدے موجود ہیں‘۔

شیئر: