Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں 10 کروڑ مالیت کی ’وہیل کی قے‘ ضبط، یہ اتنی قیمتی کیوں؟

وہیل کی قے کو خشک کرنے کے بعد اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
انڈین پولیس نے وہیل کی قے (ایمبر گریس) کی سمگلنگ میں ملوث چار افراد کو گرفتار کیا ہے۔
انڈیا کے این ڈی ٹی وی کے مطابق چھاپے کے دوران اترپردیش کی پولیس سپیشل ٹاسک فورس نے چار اعشاریہ 12 کلوگرام وہیل کی قے ضبط کی ہے جس کی مالیت 10 کروڑ روپے ہے۔
وائلڈ لائف (تحفظ) ایکٹ 1972کے تحت وہیل کی قے کی فروخت پر پابندی ہے۔ وہیل کے نظام انہضام سے نکالے جانے والے اس مواد کو دنیا کی مہنگی ترین خوشبوؤں اور ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ مواد نایاب سپرم وہیل یا دانتوں والی بڑی وہیل کی ہوتی ہے۔ اس کو ’گرے ایمبر‘ یا ’تیرتا ہوا سونا‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس ’تیرتے سونے‘ کی سمگلنگ میں ملوث چار افراد کی گرفتاری پہلا واقعہ نہیں۔ رواں برس کئی افراد کو وہیل کی قے کو غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ ٹھوس اور موم جیسا مادہ اکثر سمگل کیا جاتا ہے کیونکہ یہ سونے سے زیادہ مہنگا ہوتا ہے۔
رواں برس جولائی میں کیرالہ کے ماہی گیروں کے ایک گروپ نے 28 کروڑ مالیت کی وہیل کی قے حکام کے حوالے کی تھی۔
سوشل میڈیا پر یہ خبر سامنے کے آنے کے بعد ماہی گیروں کے اس اقدام کو سراہا گیا تھا۔

قیمتی مواد نایاب سپرم وہیل یا دانتوں والی بڑی وہیل کی ہوتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایمبر گریس وہیل کے نظام انہضام میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ مادہ کاسمیٹکس اور ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
وہیل کی قے کو کئی برسوں سے استعمال میں لایا جا رہا ہے تاہم اس کا استعمال کب اور کیسے شروع ہوا، یہ ایک طویل عرصے سے معمہ ہے۔
زمانہ قدیم سے وہیل کی قے کو قیمتی خوشبوؤں اور دیسی ادویات میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ سال ممبئی پولیس نے کہا تھا کہ ایک کلو وہیل کی قے کی قیمت ایک کروڑ روپے ہے۔
مصری اس کو ’بخور‘ اور چینی اس کو ’ڈریگن کی تھوکنے والی خوشبو‘ کہتے ہیں۔
اس قے کو خشک کرنے کے بعد اس کی قیمت مزید بڑھ جاتی ہے۔

شیئر: