Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’طالبان حکومت صنفی تعصب کا مظاہرہ کر رہی ہے‘

خواتین کے حقوق کی کارکن ناہید فرید 2010 میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے والی کم عمر ترین سیاست دان تھیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر، ناہید فرید)
افغانستان کی پارلیمنٹ کی سابق رکن ناہید فرید نے کہا ہے کہ طالبان کو انسانی حقوق کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے ’صنفی تعصب کی حامل‘ حکومت قرار دیا جائے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سابق رکن پارلیمنٹ ناہید فرید نے پیر کو کہا ہے کہ جس طرح نسلی امتیاز کا معاملہ جنوبی افریقہ میں تبدیلی کا محرک بنا ہے اسی طرح یہ افغانستان میں بھی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔
خواتین کے حقوق کی کارکن ناہید فرید 2010 میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے والی کم عمر ترین سیاست دان تھیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ کی ایک نیوز کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ }خواتین کے باہر نکلنے پر سخت پابندیوں، لڑکیوں کے لیے سیکنڈری سکول کی تعلیم کے خاتمے اور ملازمتوں پر پابندی کے نتیجے میں ’میں افغان خواتین سے بے شمار کہانیاں سن رہی ہوں جو ناامیدی اور مایوسی سے نکلنے کے لیے اپنی جان کھو دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے لیے حالات کتنے خراب ہیں کہ وہ طالبان کی حکومت کے تحت زندگی گزارنے پر موت کو ترجیح دے رہی ہیں۔
ناہید فرید نے مزید کہا کہ وہ پہلی خاتون نہیں ہیں جنہوں نے طالبان کو ’صنفی تعصب برتنے والی حکومت‘ قرار دیا ۔
’عالمی برادری اور فیصلہ سازوں کی عدم توجہی دیکھ کر یہ زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ ہم اس بات کو بار بار دہرائیں تاکہ افغانستان کی ان خواتین کی آوازیں زندہ رہیں جو بول نہیں سکتیں۔‘
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگلے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی رہنماؤں کی میٹنگ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والی افغان خواتین سے ملنے اور سننے کے لیے وقت نکالا جائے گا اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے گی کہ افغانستان میں ’صنفی امتیاز‘ ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ جب طالبان نے پہلی بار 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکومت کی تو خواتین اور لڑکیوں پر سخت پابندیاں عائد تھیں۔ کوئی تعلیم نہیں تھی اور عوامی زندگی میں ان کی شرکت مفقود تھی۔ اس وقت طالبان نے خواتین کے لیے برقع پہننا لازم قرار دیا تھا۔
بعدازاں 2001 میں امریکی افواج کے ذریعے طالبان کی بے دخلی کے بعد اگلے 20 برسوں تک افغان لڑکیوں نے نہ صرف سکول بلکہ یونیورسٹیوں میں داخلہ لیا اور بہت سی خواتین ڈاکٹر، وکیل، جج اور رکن پارلیمنٹ بنیں۔

ناہید فرید نے کہا کہ طالبان کی حکومت کے تحت زندگی گزارنے پر موت کو ترجیح دے رہی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

گزشتہ برس 15 اگست 2021 کو طالبان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد انہوں نے معتدل اسلامی حکمرانی کا وعدہ کیا تھا کہ خواتین کو گھر سے باہر تعلیم اور کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے گی۔
ناہید فرید نے طالبان پر الزام لگایا کہ وہ بین الاقوامی برادری سے قانونی حیثیت، فنڈز اور امداد کا مطالبہ کرنے کے لیے خواتین کو ’بارگیننگ چِپ‘  کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے 57 مسلم ممالک اور دیگر ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان خواتین کے حقوق کے مسائل پر طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیں۔
انہوں نے دیگر ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ طالبان پر پابندیاں برقرار رکھیں اور اقوام متحدہ میں طالبان کے نمائندوں پر پابندی لگائی جائے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ طالبان سے ملاقات کرنے والے تمام وفود میں خواتین کو شامل کیا جائے۔

شیئر: