Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں تحریک انصاف اور پرویز الٰہی اب بھی ایک صفحے پر ہیں؟

ق لیگ کے رہنما کامل علی آغا نے کہا کہ تحریک انصاف اور ق لیگ کے درمیان کسی قسم کی کوئی دوری نہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کی سیاست میں اہم سمجھے جانے والے صوبہ پنجاب میں ان دنوں مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت ہے، تاہم ان کی یہ حکومت تحریک انصاف کی مرہون منت ہے۔
موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں پرویز الٰہی نے نہ صرف ملکی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سیاسی لائن سے کھل کر اختلاف کیا بلکہ تحریک انصاف کے اکثریتی ایم پی ایز بھی بظاہر چوہدری پرویز الٰہی سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ اور اس ناراضی کا پارٹی میٹنگز میں اظہار بھی ہو رہا ہے۔
تحریک انصاف کے پنجاب سے منتخب ایم پی ایز نے پارٹی چیئرمین عمران کے سامنے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار اسلام آباد میں پنجاب ہاؤس میں ہونے والی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں کیا۔
یہ پارلیمانی میٹنگ اس لحاظ سے بھی اہم تصور کی جا رہی ہے کہ عمران خان نے اپنے چشتیاں کے جلسے میں کہا تھا کہ پنجاب میں حکومت گرائے جانے کی سازش ہو رہی ہے۔
یہ ان کی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کا اس بیان کے بعد پہلا اکٹھ تھا۔ اس میٹنگ سے متعلق تحریک انصاف کی قیادت کھل کر اظہار نہیں کر رہی ہے۔ البتہ نام ظاہر نہ کرنے شرط پر متعدد ایم پی ایز نے اس میٹنگ کا احوال اردو نیوز کے ساتھ شئیر کیا ہے۔
ایک ایم پی اے کے مطابق ’اس اجلاس میں چیئرمین عمران خان کچھ زیادہ خوش دکھائی نہیں دیے شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ کوئی دو درجن کے قریب ایم پیز اس پارلیمانی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کئی منتخب اراکین کے موجود نہ ہونے کا خان صاحب نے بُرا منایا۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ اکثریتی ایم پی ایز نے کھل کر چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اور کہا کہ ایسے لگ رہا ہے تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت ہے ہی نہیں۔ کیونکہ سب کچھ چوہدری پرویز الٰہی اپنی مرضی سے کر رہے ہیں۔‘
ایک دوسرے ایم پی اے نے بھی میٹنگ میں تحریک انصاف کے اراکین کے تحفظات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’زیادہ تر لوگوں کا یہ سوال تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی اپنی پارٹی اور پوزیشن کو مضبوط کر رہے ہیں۔‘

ایک ایم پی اے کے مطابق پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں عمران خان کچھ زیادہ خوش دکھائی نہیں دیے (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)

’انہوں نے گجرات کو ڈویژن کا درجہ دے کر فنڈز کا رُخ ادھر موڑ دیا ہے۔ حال میں 37 ارب روپے کی گرانٹ منظور کروائی ہے جو کہ بہت زیادہ ہے اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کے ایم پی ایز کو اتنے فنڈز دیے جا رہے جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ۔‘
ایک اور ایم پی اے نے بتایا کہ خان صاحب نے ان شکایات کو تحمل سے سنا اور اپنے اراکین سے کہا کہ یہ درست ہے کہ پنجاب میں ہماری حکومت براہ راست نہیں ہے لیکن اس مسئلے کا حل بھی ضروری ہے۔
’انہوں نے سینیئر وزیر میاں اسلم اقبال اور میاں محمود الرشید کی ڈیوٹی لگائی کہ کوئی بھی ایم پی اے براہ راست چوہدری پرویز الٰہی کو کام نہیں کہے گا بلکہ ان دو وزرا سے رابطہ کرے گا۔ خان صاحب نے کہا کہ اب کسی کو شکایت نہیں آئے گی۔‘
اسلام آباد میں ہونے والے اس اجلاس اور اس میں ہونے والے فیصلوں سے متعلق جاننے کے لیے پنجاب کے سینیئر وزیر میاں اسلم اقبال سے رابطہ کیا گیا تو وہ دستیاب نہیں تھے۔ البتہ پنجاب حکومت کے مشیر برائے اطلاعات عمر چیمہ نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی کہ چوہدری پرویز الٰہی اور پی ٹی آئی میں کوئی دراڑ ہے۔
انہوں نے بتایا ’ہم دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور کسی قسم کا کوئی تحفظ تحریک انصاف کے اراکین کو نہیں ہے۔ ایسی خبریں محض حکومت کو کمزور کرنے کے لیے پھیلائی جا رہی ہیں۔‘

چشتیاں جلسے کے بعد یہ پارلیمانی پارٹی کا پہلا اجلاس تھا (فائل فوٹو: عمران خان فیس بک)

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کئی ایم پی ایز اجلاس میں نہیں آئے تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایک اجلاس ایمرجنسی میں بلایا گیا تھا اور جو لوگ بروقت نہیں پہنچ سکے ان کی کوئی نہ کوئی ذاتی مجبوری تھی۔‘
ق لیگ کے رہنما کامل علی آغا نے بھی اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’تحریک انصاف اور ق لیگ کے درمیان کسی قسم کی کوئی دوری نہیں۔‘
’اگر کسی نے چھوٹی موٹی شکایت کی بھی تو وہ عارضی معاملہ ہے۔ شکایت تو اراکین کو بزدار سے بھی تھی۔ اتنی اونچ نیچ چلتی رہتی ہے۔‘

شیئر: