Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران میں مظاہرین کی ہلاکتیں سرکاری اعدادوشمار سے زیادہ ہیں: ایمنسٹی

ایران کے مغربی کرد علاقوں میں سب سے زیادہ پرتشدد جھڑپیں ہوئی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایران میں حکومت مظاہرین کی ہلاکتوں کے اعدادوشمار کو مسخ کر رہی ہے تاکہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے ضرورت سے زیادہ استعمال کو چھپایا جا سکے۔
برطانوی اخبار دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق ایران میں 22 سالہ مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد تقریباً دو ہفتوں سے ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
ایران کے مغربی کرد علاقوں میں سب سے زیادہ پرتشدد جھڑپیں ہوئی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے محقق منصورہ ملز نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے تشدد کی خوفناک شرح کو دیکھتے ہوئے ہلاک ہونے والے مظاہرین کی اصل تعداد سرکاری ٹی وی کی رپورٹ کردہ تعداد سے زیادہ ہے۔
ملز نے بتایا کہ ایرانی حکام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانے کے لیے سچائی کو مسخ کرنے کا ایک باقاعدہ طریقہ کار اپناتے ہیں۔
نومبر 2019 کے احتجاج کے بعد بھی ایرانی حکام نے ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے مسلسل انکار کیا تھا۔ اس وقت بھی سکیورٹی فورسز نے سینکڑوں مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کیا تھا۔
’ایران کے حکام نے سنہ 2019 میں بھی احتجاج کے دوران مارے گئے افراد کی تعداد کو چھپایا اور سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس اہلکاروں کی کارروائی کی تعریف کی۔‘
ہیومن رائٹس واچ کے خواتین کے حقوق کے شعبے کی سینیئر محقق روتھنا بیگم نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ ہلاک ہونے والوں کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے جو سرکاری میڈیا رپورٹ کر رہا ہے۔
’احتجاج میں شامل افراد کی تعداد بھی سرکاری اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے جو زیادہ تر پُرامن ہوتے ہیں۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ ’وہ تحقیقات کر رہی ہے‘ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

انہوں نے کہا کہ حکام کو طاقت کے بے تحاشا استعمال سے گریز کرنا چاہیے اور مظاہروں کے دوران ہونے والی تمام اموات کی تحقیقات کرنی چاہیے۔
’ہمیں گذشتہ ہفتے خواتین کے حقوق کے لیے احتجاج کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کے محافظوں کو گرفتار کیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس کی ہم تحقیقات کر رہے ہیں۔‘
ملز نے مزید کہا کہ ’ایرانی حکومت صحافیوں، سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو من مانی کرتے ہوئے گرفتار کرتی ہے تاکہ عوامی اختلاف رائے یا رپورٹنگ اور تنقید کی کسی بھی شکل کو خاموش کیا جا سکے۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو فوری طور پر ایسے قوانین اور ضوابط کو منسوخ کرنا چاہیے جو خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کو چھپاتے، ان کے خلاف تشدد کو جاری رکھتے اور ان سے ان کے وقار اور جسمانی خود مختاری کے حق کو چھینتے ہیں۔
مہسا امینی کی موت کے بعد سے اب تک 1,200 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ملک گیر مظاہرے گذشتہ تقریباً تین برسوں میں ایران کے سب سے بڑے مظاہرے ہیں۔

شیئر: