Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیکس کی سیاست! ماریہ میمن کا کالم

لیکس پر عمران خان اور اعظم خان کے خلاف ایف آئی اے کارروائی کرے گا۔ فوٹو: اے ایف پی
ملکی سیاست کے کئی رنگ ہیں۔ اجتجاج کا رنگ مستقل ہے۔ اس کے ساتھ احتساب کا رنگ بھی چلتا رہتا ہے۔ بیچ میں مارشل لا کا رنگ بھی آ جاتا ہے۔ کچھ عرصے سے ہائی برڈ کا رنگ بھی خوب چڑھا ہوا ہے اور ابھی بھی اترتا نظر نہیں آ رہا۔
آج کل البتہ سیاست کا نیا رنگ لیکس کا رنگ ہے۔ ایک کے بعد ایک آڈیو ٹیپس سامنے آ رہی ہیں۔
تازہ ترین سابق وزیراعظم عمران خان کی آڈیو ہے جس کو بنیاد بنا کر وفاقی حکومت نے قانونی کارروائی اور تفتیش کا اعلان کر دیا ہے۔ عمران خان اس کو مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جتنی بھی تفتیش ہوگی وہ ان کے بیانیے کو تقویت ہی دے گی۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تمام فریق یہ کارروائی چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کا ان کو فائدہ ہو گا۔
اصل ایشو البتہ اس سیاست کے دوران پیچھے رہ گیا ہے۔ وہ ہے ریاست، حکومت اور معاشرت میں روایات اور اصولوں کی تنزلی۔
سب سے پہلے ریاست اور قومی امور کی پاسداری اہم ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کیا دنیا میں ہمیں ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پہچانے جانے کی اہمیت ہے یا نہیں ؟ اور اگر ہم یہ ادراک رکھتے ہیں کہ ہم بطور سنجیدہ اور ذمہ دار ریاست کے طور پر پہچانے جائیں تو کیا ہمیں بقول انگریزی محاورے کے اپنے میلے کپڑے چوراہے پر دھونے چاہییں؟
ایوان وزیراعظم اور اس سے منسلک اداروں میں اگر گفتگو محفوظ نہیں تو ہمارے سرکاری نظام پر کون بھروسا کرے گا۔ موجودہ اور سابق وزیراعظم کی بطور وزیراعظم گفتگو لیک ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس لیک کے ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہے اور کیا اس چیز کو یقینی بنایا گیا ہے کہ ہمارے اعلٰی دفاتر اور ایوان محفوظ ہیں؟ 

کابینہ نے 30 ستمبر کو سائفر سے متعلق مبینہ آڈیو پر کمیٹی تشکیل دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

لیکس کی سیاست نے ہماری سیاسی روایات کو ایک نئی پستی میں دھکیل دیا ہے۔ ہمیشہ سے ہمارے ہاں یہ احساس ضرور رہا ہے کہ ہمارے جمہوری ادارے اتنے مضبوط نہ سہی مگر ہماری سیاست میں ایک رواداری اور اخلاص کا پہلو موجود رہا ہے۔
باوجود اس کے کہ نوے کی دہائی میں سیاسی تجربات تلخ رہے، ایک بنیادی سطح کی رواداری بھی سیاست کا حصہ رہی ہے۔ کچھ نہ کچھ سیاسی حدود کا بھی خیال رکھا جاتا رہا ہے۔
حکومت میں جو بھی پارٹی ہو انہیں چونکہ سرکاری اداروں سے معلومات کا سلسلہ ہوتا ہے اس لیے ان کے پاس اپنے سیاسی حریفوں کے بارے میں بھی معلومات ضرور ہوتی ہیں۔ لازم ہے کہ ان میں سے کچھ معلومات ایسی ہوں جن کا عام ہونا ان حریفوں کو سیاسی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے باوجود ایسا شاز ہی ہوا ہے کہ اگر ایک حکومت یا کسی فریق کے پاس کوئی ایسا مواد ہو تو اس کو پبلک کیا جائے اب البتہ تمام حدیں پار ہو چکی ہیں۔
دونوں اطراف کے خلاف آڈیو لیکس کا ایک مقابلہ ہے۔ یہ تعین کرنا تو مشکل ہے کہ لیکس کے پیچھے کون ہے مگر یہ تو ہر لیک کے ساتھ واضح ہوتا ہے کہ اس کا ٹارگٹ کون ہے۔ سوال یہ بھی ہے ایسی ٹارگٹڈ لیکس کو روکنے کے لیے کیا کوئی سیاسی میثاق تشکیل پائے گا یا اسی طرح روز ایک نیا سے نیا لیک سامنے آئے گا؟ 
حکومت اور سیاست کا اثر معاشرت پر ہوتا ہے۔ جس طرح ہماری سیاست میں کسی حد تک رواداری کا عنصر نمایاں رہا ہے۔ اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہماری معاشرتی روایات میں چار دیواری کا تحفظ اور نجی زندگی کی پردہ داری پر لوگوں کا اتفاق ہے۔

فواد چوہدری کے مطابق آڈیو کی تحقیقات سپریم کورٹ کا کمیشن کرے۔ فوٹو: اے ایف پی

جس طرح سیاست نے حکومت کو متاثر کیا ہے اسی طرح ہماری معاشرت بھی اس سے متاثر ہوئی ہے جہاں پر اب سیاسی طور پر گالم گلوچ عام ہو چکی ہے۔ اسی طرح سیاستدانوں اور حکومتی عہدے داروں کی نجی یا نجی طور پر کی گئی سرکاری گفتگو کو بھی عام کرنے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے میں کوئی آر نہیں سمجھا جا رہا۔
یہ روش ہماری روایات کو کہاں لے کر جائے گی ؟ کیا ہمارے سیاستدان سمجھتے ہیں کہ یہ آخری معرکہ ہے اور اس کے بعد انہوں نے کبھی ایک دوسرے کا سامنا نہیں کرنا؟ 
ہمارے سیاستدان یقیناً اتنے تجربہ کار ہیں اور سیاست میں اتنے نشیب و فراز دیکھ کر یہ جان چکے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی معرکہ آخری نہیں ہوتا۔ مگر شاید وہ یہ فراموش کر چکے ہیں کہ ان معرکوں کی دھول سے سیاست کا چہرہ مسخ اور منظر نامہ تلخ ضرور ہو جاتا ہے۔
موجودہ سیاست کی تلخی کے اثرات دیر پا ہوں گے۔ ایک دوسرے پر مقدموں کا تو رواج موجود ہے مگر لیکس کے نام پر غیر قانونی اور غیر اخلاقی وار ہمارے ہاں ایک نئی اور حوصلہ شکن روایت ہے۔ اب یہی امید ہے کہ ہمارے لیڈروں میں اتنی فہم و فراست پیدا ہو کہ وہ وقتی فائدے کے لیے ریاست، سیاست اور معاشرت کا نقصان نہ کریں۔
موجودہ حالات میں اس کی توقع تو کم ہے مگر پھر بھی شاید اہل سیاست جوش پر ہوش کو ترجیح دیں۔ اپنے لیے نہ سہی ملک کے لیے۔

شیئر: